باچا خان یونیورسٹی غیر معینہ مدت کیلئے بند‘ انتظامیہ نے اساتذہ کیلئے اسلحہ مانگ لیا
چارسد+ پشاور (بی بی سی+ اے ایف پی+ نوائے وقت رپورٹ) چارسدہ میں باچا خان یونیورسٹی کو گذشتہ روز غیرمعینہ کے لیے بند کر دیا گیا ہے۔ گذشتہ ہفتے ہونے والے حملے کے بعد گذشتہ روز جب یونیورسٹی کو کھولا گیا تو طالب علموں نے یونیورسٹی کے باہر احتجاج کیا اور مطالبہ کیا کہ سکیورٹی انتظامات کو بہتر بنایا جائے۔ اے ایف پی کے مطابق یونیورسٹی کی انتظامیہ نے حکومت سے سکیورٹی کے پیش نظر اپنے اور اساتذہ اور دیگر عملہ کے لیے اسلحہ دینے کا مطالبہ کیا ہے۔ باچا خان یونیورسٹی کے رجسٹرار حمیداللہ خان نے کہا ہے کہ ہم نے حکومت سے اپنے تمام اساتذہ اور انتظامیہ کے لئے اسلحہ اور لائسنس دینے کا مطالبہ کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہم نے حکومت سے یونیورسٹی کے اندر اور باہر پولیس کے لیے چیک پوسٹ قائم کرنے اور طلبہ کی حفاظت کے لیے ٹاور بنانے کے لیے بھی کہا ہے۔ گذشتہ روز باچا خان یونیورسٹی کو حملے کے پانچ دن بعد کھولا گیا۔ طلبہ اور اساتذہ نے یونیورسٹی کی لائبریری میں شہدا کے لیے فاتحہ خوانی کی۔ شہید ساتھیوں کو یاد کر کے طلبہ کی آنکھیں نم ہو گئیں۔ طلباءنے یونیورسٹی کے باہر حملہ کرنے والے درندوں کے خلاف احتجاجی مظاہرہ بھی کیا اور پاک فوج کے حق میں نعرے بلند کیے۔ طلباءکا کہنا تھا کہ وہ بزدل دہشتگردوں سے ڈرنے والے نہیں بلکہ قلم کے زور پر انہیں شکست دیں گے۔ باچا خان یونیورسٹی کے وائس چانسلر فضل رحیم مروت کا کہنا تھا کہ وہ کلاشنکوف کلچر پر یقین نہیں رکھتے بلکہ قلم کے ذریعے دہشتگردوں کو نیچا دکھائیں گے۔ باچا خان یونیورسٹی کو انتظامیہ کے اجلاس کے فیصلے کے مطابق دوبارہ غیرمعینہ مدت کے لیے بند کر دیا گیا۔ یونیورسٹی کے ترجمان کے مطابق یونیورسٹی کو بند کرنے کا فیصلہ تمام ڈیپارٹمنٹس کے سربراہوں کے اجلاس میں کیا گیا جس میں حکومت سے ایف سی کی تعیناتی سمیت دیگر مطالبات بھی کیے گئے ہیں۔ نوائے وقت رپورٹ کے مطابق گذشتہ روز یونیورسٹی کھلنے پر شہدا کے لیے قرآن خوانی کی گئی۔ اساتذہ اور طلباءنے دہشت گردی کے خلاف بلند عزائم کا اظہار کیا۔ یونیورسٹی میں طلباءنے سخت احتحاج کیا اور سکیورٹی سخت کرنے کا مطالبہ کیا۔ ترجمان یونیورسٹی نے کہا ہے کہ ہر 100 میٹر پر واچ ٹاور بنائے جائیں گے۔ یونیورسٹی تک آنے والے روڈز کو ڈبل کیا جائے گا۔ ہائی ریزولیوشن کیمرے اور سکیورٹی کے لئے ایف سی اہلکاروں کو تعینات کیا جائے گا۔ مطلوبہ حد تک یونیورسٹی کی دیواورں کو اونچا کیا جائے گا۔ موٹر وے پر یونیورسٹی کے لئے الگ انٹرچینج قائم کیا جائے گا۔ بی بی سی کے مطابق گذشتہ بدھ باچا خان یونیورسٹی پر دہشت گردوں کے حملے میں 20 سے زائد افراد شہید ہوئے تھے جبکہ فوج کے آپریشن میں چار دہشت گرد بھی مار گئے تھے۔ پیر کو یونیورسٹی میں کلاسز کا آغاز متاثرین کے لیے دعاﺅں سے کیا جانا تھا۔ گذشتہ ہفتے حملے کے بعد مختلف شہروں میں اس حملے کے خلاف احتجاج اور دعائیہ تقریبات منعقد کی گئی تھیں۔ ابتدائی طور پر یہ واضح نہیں تھا کہ یہ حملہ کس دہشت گرد گروہ کی جانب سے کیا گیا تھا لیکن بعد میں پاکستانی طالبان کے ایک کمانڈر نے حملے کی ذمہ داری قبول کی تھی لیکن تحریک طالبان پاکستان کے مرکزی ترجمان نے اس دعوے کی تردید کی تھی۔ تاہم فوج کے ترجمان کا کہنا تھا کہ اس حملے کے ماسٹر مائند تحریک طالبان کے ایک کمانڈر خلیفہ عمر منصور تھے جبکہ کہ ان کے ماتحت قاری ذاکر نے اسے ممکن بنایا تھا۔ فوج کے ترجمان کے مطابق حملے میں مدد کرنے والے چار افراد کو گرفتار کر لیا گیا جس میں قاری ذاکر کا ایک رشتے دار بھی شامل ہے۔پشاورسے بیورو رپورٹ کے مطابق حملہ کی تحقیقات کےلئے بنائی گئی کمےٹی نے تفتیش کا آغاز کرتے ہوئے پیر کے روز ےونےورسٹی کا درہ کےاکمےٹی حملہ سے پہلے اور بعد مےں باچا خان ےونےورسٹی کے سکےورٹی کا جائزہ لے کر ذمہ داروں کا تعےن کرے گی اس ضمن مےں گزشتہ روز کمشنر پشاور ڈاکٹر فخرعالم کی سربراہی مےں تےن رکنی کمےٹی نے ابتدائی تحقےقات کے دوران ےونےورسٹی کا دورہ کےا اور ملازمےن، اساتذہ اور دےگر متعلقہ افراد کے بےانات قلمبند کئے۔
یونیورسٹی بند