بیورو کریسی کی غلط پلاننگ، اورنج لائن منصوبہ مزید مہنگا
لاہور (معین اظہر سے) حکومت پنجاب کی بیورو کریسی کی غلط پلاننگ کی وجہ سے صوبہ کا سب سے مہنگا منصوبہ شروع ہونے کے بعد مزید مہنگا ہوگیا۔ حکومت کی جانب سے اورنج لائن ٹرین منصوبے کا چین کے بنک سے قرضہ منظور نہ ہونے پر برج فناسنگ کرکے مزید 22 ارب کا قرضہ لیا جارہا ہے۔ اس قرضہ کی فیس اور دیگر اخراجات کیلئے 31 کروڑ روپے کی منظوری دیدی گئی ہے جبکہ ڈی جی ایل ڈی اے احد خان چیمہ نے اعتراضات کے جواب میں بتایا ہے کہ امکان ہے کہ وزرارت اکنامک افیئرز ڈویژن اور ایل ڈی اے ، چین کے بنک کے درمیان قرضہ کی پہلی قسط فروری مارچ تک جاری ہوجائیگی جس پر بنک آف پنجاب کو اس کے قرضہ کی رقم واپس کردی جائیگی جبکہ ایگزم بنک چین کے ذرائع کے مطابق قرضہ مزید لیٹ ہوسکتا ہے کیونکہ چین کی کمپنی کی بجائے اورنج لائن ٹرین منصوبے کے پہلے فیز کا ٹھیکہ دو لوکل کمپنیوں کو دیدیا گیا تھا جن کو ماضی میں ایل ڈی اے نے مہنگے منصوبے دئیے تھے جس پر چین کے بنک نے مزید شرائط سخت کردی ہیں کیونکہ چین کی کمپنی نے بنک میں اس کیخلاف اعتراضات جمع کروائے ہیں۔ تاہم اورنج لائن ٹرین منصوبہ کے پہلے فیز پر تقریباً 62 ارب روپے خرچ آنے ہیں جس میں سے تقریباً پنجاب حکومت آدھی رقم خود ہی قرضہ لیکر لگا چکی ہے۔ منصوبہ ستمبر 2015ء میں شروع کردیا گیا تھا جبکہ ٹھیکیداروں کے مزید کام کرنے سے انکار کے بعد قرضہ پر قرضہ لیا جا رہا ہے جس پر تقریباً پنجاب حکومت کو kibor pluse پر اس قرضہ کا مارک اپ پر تقریباً 3 ارب ادا کرنے پڑیں گے، عوام کا 3 ارب روپیہ کس کی غلطی سے ضائع ہو رہا ہے کسی سے نہیں پوچھا جا رہا ہے۔ ڈی جی ایل ڈی اے کی جانب سے 31 کروڑ 20 لاکھ روپے کی رقم مانگی گئی تھی جس کیلئے اعلی سطحی اجلاس ہوا کے جو فیصلے جاری کئے گئے ہیں اس کے مطابق 31 کروڑ روپے کی منظوری دیدی گئی ہے۔ جبکہ اورنج لائن ٹرین منصوبہ کو ایکنک نے 13 مئی 2015 کو منظور کیا جس پر 165.2 ارب روپے خرچ ہونے ہیں جس میں چین کا ایگزم بنک اس کیلئے سافٹ لون دیگا۔ یہ قرضہ پاکستان چین اکنامک کوریڈور منصوبے کے تحت دیا جائیگا۔ اس کیلئے ایل ڈی اے نے سول ورک کیلئے دو حصوں میں دو کنٹریکٹر کو ٹھیکہ دیا تھا جس پر 10 ستمبر کو بغیر قرضہ منظوری کے اس پراجیکٹ پر ان کنٹریکٹر نے ایل ڈی اے کے احکامات پر کام شروع کردیا۔ روپورٹ میں کہا گیا ہے کہ قرضہ کیلئے ایگزم بنک اور حکومت پاکستان کے وزارت اکنامک افیئرز ڈویژن اور ایل ڈی اے کے درمیان قرضہ کے معاملات حل نہیں ہوسکے جبکہ اگر قرضہ کا معاہدہ فوری طور پر ہوجائیگا تب بھی چند ماہ قرضہ کی پہلی قسط جاری ہونے میں لگیں گے جبکہ اس دوران کنٹریکٹر مزید کام جاری نہیں رکھ سکیں گے۔ اسلئے حکومت پنجاب نے فیصلہ کیا ہے کہ 22 ارب 73 کروڑ 60 لاکھ کا قرضہ بنک آف پنجاب سے لیا جائے جس کیلئے محکمہ خزانہ نے بنک گارنٹی جاری کردی ہے۔ وزارت اکنامک افیئرز کے ذرائع کے مطابق ایگزم بنک سے قرضہ کے معاملات ابھی طے نہیں ہوسکے ہیں، اس سال جون تک قرضہ کی رقم جاری ہونے کے امکانات ہیں جس سے حکومت پنجاب کو اربوں روپے قرضہ کے قرضہ پر سود کی ادائیگی پر خرچ کرنے پڑیں گے جبکہ کسی سے نہیں پوچھا جارہا ہے کہ اتنے بڑے منصوبے میں اتنی مہنگی کوتاہی پر کسی کیخلاف ایکشن کیوں نہیں لیا گیا ہے۔ ماہر معاشیات ڈاکٹر قیس اسلم نے کہا اتنا مہنگا منصوبہ کی ضرورت نہیں تھی کیونکہ کوئی فزیبلٹی رپورٹ نہیں بنائی گئی کیونکہ 20 سال میں اس منصوبہ سے اتنا ریونیو نہیں آئیگا کہ وہ اپنا خرچہ پورا کرسکے لیکن خواہشات پر منصوبے نہیں چلتے، اس قرضہ کی واپسی کیلئے مزید قرضہ لینے پڑیں گے، عوام پر ٹیکس کی صورت میں بوجھ پڑے گا۔