اورنج لائن : ہائیکورٹ نے گیارہ تاریخی عمارتوں کے دو سو فٹ تک کام روک دیا
لاہور (وقائع نگار خصوصی) لاہور ہائی کورٹ کے جسٹس عابد عزیز شیخ اور جسٹس شاہد کریم پر مشتمل ڈویڑن بنچ نے گیارہ تاریخی عمارتوں شالیمار گارڈن، گلابی باغ گیٹ وے، بدھو کا آوا، چوبرجی، مقبرہ زیب النسائ، لکشمی بلڈنگ، جنرل پوسٹ آفس، ایوان اوقاف، سپریم کورٹ رجسٹری بلڈنگ، سینٹ اینڈریو چرچ اور بابا موج دریا کے 200فٹ کے احاطے میں اورنج لائن ٹرین کی تعمیر روک دی۔ عدالت نے محمد کامل ممتاز خان وغیرہ کی درخواستوں پر عبوری حکم امتناعی جاری کر دیا۔ حکومت پنجاب کے وکیل خواجہ حارث نے کہا کہ گیارہ تاریخی عمارتوں کے بارے میں این او سی لیا جا چکا ہے حکومت چائنہ کے ساتھ معاہدے ہیں اگر پراجیکٹ لیٹ ہوا تو نقصان ہوگا۔ ایل ڈی اے اس پراجیکٹ کی نگرانی کر رہا ہے اگر وقت پر پراجیکٹ مکمل نہ ہوا تو بین الاقوامی طور پر نقصان ہو سکتا ہے۔ جسٹس عابد عزیز شیخ نے کہا کہ کیا این او سی جاری کرتے وقت محکمہ آثار قدیمہ نے پرائیویٹ تجربہ کار لوگوں کو ساتھ شامل کیا اور کن کن ماہرین سے رائے لی گئی؟ خواجہ حارث نے بتایا کہ کئی میٹنگز ہوئیں اور ساری چیزوں کو دیکھ کر اور تاریخی ورثے کو سنبھالنے کیلئے اقدامات کیے گئے ہیں۔ درخواست گزار کے وکیل محمد اظہر صدیق ایڈووکیٹ نے عدالت کو بتایا کہ سلیم الحق سابقہ ڈائریکٹر آثار قدیمہ کو این او سی لینے کیلئے تبدیل کر دیا گیا کیونکہ انہوں نے اینٹی کیویٹی ایکٹ 1975کے تحت پانچ عمارتوں کا این او سی دینے سے انکار کر دیا تھا۔ دیگر چھ عمارتوں کا این او سی چیف سیکرٹری نے جاری کیا۔ ڈاکٹر نیئر علی داد اور اعجاز انور نے این او سی دینے کی مخالفت کی اور سرکاری افسروں نے وزیراعلیٰ پنجاب کی خواہش کے مطابق این او سی جاری کر دیا۔ سب سے دلچسپ بات یہ ہے کہ میٹرو اورنج ٹرین کیلئے 19جنوری 2015 کو ٹینڈر جاری کیاگیا مگر بعد میں بغیر کسی شفافیت کے یہ معاہدہ دیدیا گیا۔ اپریل 2015 میں معاہدہ پر دستخط ہوئے اور اس معاہدے کے مطابق جب قرضے کیلئے معاہدہ ہو گا تو یہ معاہدہ قابل عمل ہو گا مگر حکومت پنجاب اور ایل ڈی اے نے ملی بھگت سے اگست/ستمبر میں تعمیرات شروع کر دیں اس وقت زمین ایکوائرکی گئی تھی نہ ہی این او سی لیے گئے تھے۔ ابھی تک 26اموات اس خونی ٹرین کی وجہ سے ہو چکی ہیں۔ اس کے ذمہ دار حکومت پنجاب ہے۔ یہ پراجیکٹ ایک سو باسٹھ ارب کا نہیں۔ ڈھائی سو ارب سے زیادہ کا ہے۔
حکم امتناعی