بھارتی فوج کی جانب سے کشمیریوں کو لاپتہ کرنے کے واقعات میں تیزی آئی: برطانوی خبر ایجنسی
؎داد پورہ (اے ایف پی) مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فورسز کی جانب سے کشمیریوں کو لاپتہ کرنے کے واقعات میں ایک بار پھر اضافہ ہوگیا ہے۔ اغوا ہونیوالوں میں اکثریت نوجوانوں کی ہوتی ہے جنہیں پکڑ کر جعلی فائرنگ کے تبادلے میں شہید کر دیا جاتا ہے۔ مقبوضہ کشمیر کے گائوں داد پورہ میں 38 سالہ خاتون بیگم جان اپنے 10 بچوں کے ساتھ 17 نومبر کو لاپتہ ہونیوالے اپنے شوہر محنت کش غلام جیلانی کا انتظار کر رہی ہیں۔ بیگم جان نے کہا انہیں شوہر کے واپس آنے کی امید نہیں۔ بھارتی فورسز نے اسے شہید کر دیا ہوگا۔ مقامی افراد نے بتایا کہ غلام جیلانی اپنے ایک ساتھی مہر حسین کھتانہ کے ساتھ ایک فوجی کے ساتھ گیا تھا۔ انسانی حقوق کی تنظیموں کے مطابق 1989 سے بھارتی فورسز 8000 سے زائد کشمیریوں کو لاپتہ کر چکی ہے۔ ایک دہائی کے دوران کشمیریوں کی گمشدگی کے واقعات میں کمی آئی مگر گذشتہ عرصے میں ایک بار پھر یہ سلسلہ تیز ہوگیا ہے۔ بھارتی فورسز کے اہلکار انعام حاصل کرنے اور ترقی پانے کیلئے کشمیریوں کو لے جا کر شہید کر دیتے ہیں۔ 2010ء میں بھارتی فوج نے 3 کشمیری نوجوانوں کو قتل کر دیا تھا۔ جس کے بعد پورے کشمیر میں مظاہرے شروع ہوگئے اور پھر بھارتی فورسز نے مظاہروں کو کچلنے کے دوران 120 کشمیریوں کو شہید کر دیا تھا۔ بعد ازاں پولیس تفتیش سے معلوم ہوا کہ ان تینوں نوجوانوں کو فوج نے اپنے ساتھ لے جا کر ایک جعلی جھڑپ کا ڈرامہ رچا کر شہید کیا تھا۔ مقامی افراد کے مطابق غلام جیلانی کے لاپتہ ہونے کے بعد واقعہ کے 3 ہفتوں بعد غلام جیلانی کو لے جانے کے شبہ میں ایک بھارتی فوجی کو گرفتار کیا گیا تھا۔ بیگم جان نے اسی عرصہ میں لاپتہ ہونے والے علی محمد کے گھر والوں سے بھی رابطہ کیا کیونکہ یہی فوجی اہلکار علی محمد کے لاپتہ ہونے سے ایک روز قبل اس کو تلاش کرتا بھی دیکھا گیا تھا۔ مقامی سپرنٹنڈنٹ اعجاز احمد بٹ نے تصدیق کی ہے کہ ایک فوجی کو اغوا کے الزام میں تحویل میں لیا گیا ہے۔ پولیس نے ایک ٹیکسی ڈرائیور کو بھی گرفتار کیا ہے جس نے بتایا کہ وہ گائوں سے 30 کلو میٹر اور اس نے بھارتی فوجی اور 3 افراد کو بھارتی فوجی کیمپ کے قریب چھوڑا ہے۔ غلام جیلانی کے خاندانی ذرائع کے مطابق بیگم جان مقامی عدالت کے 15 چکر لگا چکی ہے۔ پولیس اس کی تلاش کیلئے زیادہ کوششیں کرتی نظر نہیں آرہی۔ غلام جیلانی کے بھتیجے نے بتایا کہ میرے والد کو بھی 1992 میں ایسے ہی غائب کیا گیا تھا اور آج تک ان کا پتہ نہیں چلا۔