ایکشن پلان کی نگرانی کیلئے پارلیمانی سکیورٹی کمیٹی بنائی جائے: اپوزیشن
اسلام آباد (آئی این پی) اپوزیشن جماعتوں نے نیشنل ایکشن پلان کی نگرانی کیلئے پارلیمانی داخلہ سیکیورٹی کمیٹی بنانے کا مطالبہ کر تے ہوئے کہا ہے کہ ملک میں دہشت گردی اور انتہاء پسندی سابق ڈکٹیٹر ضیاء الحق کے تحفے ہیں، نیشنل ایکشن پلان درحقیقت جناح اور ضیاء الحق کے پاکستان کے درمیان جنگ ہے، دہشت گردی کیخلاف نیشنل ایکشن پلان نو ایکشن پلان بن چکا، پنجاب میں کوئی ایکشن پلان نہی، طالبان سمیت کالعدم تنظیموں کا نیٹ ورک آج بھی کام کررہاہے، حکومت نیپ پر عمل کرنے میں ناکام ہو گئی، ایک مرتبہ پھر تمام جماعتوں کو بیٹھنے کی ضرورت ہے کی،آج بھی پرانی افغان پالیسی جاری ہے، وزیر داخلہ کی پریس کانفرنس سے لگتا ہے وہ دہشت گردی کو جائز قرار دینا چاہتے ہیں،کالعدم تنظیمیں نئے نام سے کام کر رہی ہیں حکومت سر چھپائے بیٹھی ہے، اقوام متحدہ کی جانب سے ڈکلیئر دہشت گرد پنجاب میں دندناتے پھر رہے ہیں،کالعدم تنظیم نے کراچی سے 9 نشستیں جیتی ہیں،کالعدم تنظیم نے نیپ کے ہوتے ہوئے کس طرح الیکشن لڑا، ملک میں انتہاپسندی جیسے کینسرکی وجہ سے دہشت گردی ہو رہی ہے، ہمیں پہلے کینسر کو ختم کرنا ہوگا جس کی دوا نیشنل ایکشن پلان میں تھی، ہم نیشنل ایکشن پلان کو متنازعہ نہیں بنانا چاہتے بلکہ اس پر مکمل عمل درآمد چاہتے ہیں کیونکہ حکومت نیشنل ایکشن پلان پر عمل درآمد میں سنجیدہ نہیں، کچھ خفیہ ہاتھ بھی اس کی ناکامی کا سبب ہیں، قوم کہتی ہے ہم جنازے دے چکے اب حکمران سیاستدان بھی کچھ کریں، قوم دہشتگردی کے مرض سے نجات کیلئے پورے ملک میں آپریشن کے لئے تیار ہے۔ شہید بھٹو فائونڈیشن کے زیراہتمام نیشنل ایکشن پلان پر سیمینار میں افراسیاب خٹک، حیدر عباس رضوی، شیری رحمن اور فرحت اللہ بابر سمیت دیگر سیاسی رہنمائوں نے شرکت کی۔ افراسیاب خٹک نے کہا کہ ملک میں انتہا پسندی کا کینسر ہے، انتہا پسندی کی وجہ سے ہی دہشت گردی ہو رہی ہے، ہمیں پہلے کینسر کو ختم کرنا ہو گا جس کی دوا نیشنل ایکشن پلان میں تھی، اس ملک میں مدرسے پہلے بھی موجود تھے لیکن جہاد کا نام افغان جنگ میں استعمال کیا، ایک عرصے تک ہم ماننے کیلیے تیار نہیں تھے کہ یہاں دہشت گرد موجود ہیں۔ پاکستان کو انتہا پسندی کا کینسر ہو گیا ہے، ہمیں علامات کا نہیں مرض کا علاج کرنا ہے، حیدر عباس رضوی نے کہا کہ بتایا جائے کہ قومی ایکشن پلان ہے یا حکومت کا ایکشن پلان ہے، عوام کا جمہوری حق ہے کہ حکومت عوام کو کارکردگی پر اعتماد میں لے۔ فرحت اللہ بابر نے کہا کہ نیشنل ایکشن پلان میں بنیادی نکات میں اہم نکتہ تھا کہ کالعدم تنظیموں کیخلاف کارروائی کی جائے گی لیکن کیا ایسا کیا گیا حالانکہ سکول و یونیورسٹیاں بند کر دی گئیں، پارلیمنٹ میں کالعدم تنظیموں کے بارے سوال آیا تو جواب آیا کہ 61 کالعدم ہیں لیکن معلوم نہیں وہ کام کررہی ہیں یا نہیں، نئے ناموں بارے بھی صوبوں سے پوچھ کر بتائینگے، مرکزی حکومت اور وفاقی وزارت داخلہ کو اس حوالے سے علم تک نہیں۔ وزیراعظم نے اعلان کیا کہ پٹھان کوٹ میں جو تنظیم ملوث پائی گئی اس کے خلاف کارروائی کی جائیگی، مظفرآباد میں ایک تنظیم نے اعلان کر دیا لیکن حکومت نے اسکے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی تو اس سے ثابت ہوتا ہے کہ حکومت ناکام ہوگئی ہے۔ مولانا عبدالعزیز کی ایف آئی آر کے اندراج تک میں مبہم بیانات کا سہارا لیا جا رہا ہے۔ موجودہ حکومت دہشت گرد تنظیموں کے حوالے سے نرم گوشہ رکھتی ہے۔ سینیٹر شیری رحمن نے کہا کہ ن لیگ ایکشن پلان پر کام ہورہا ہے لیکن قومی ایکشن پلان پہ کام کب ہو گا، ہمارے بچوں اور پاکستان کا مستقبل نیشنل ایکشن پلان سے وابستہ ہے، قوم دہشتگردی کے مرض سے نجات کے لئے پورے ملک میں آپریشن کے لئے تیار ہے، شہداء اے پی ایس اور چارسدہ کی مائیں کہتی ہیں کہ جوڈیشل انکوائری کیوں نہیں ہوئی، وزیراعظم کیوں چارسدہ نہیں گئے، بتایا جائے کہ کسی جمہوریت میں ایسا ہوتا ہے۔