• news
  • image

70 ارب روپے۔۔۔

مسلم لیگ (ن) کی حکومت سے قبل پیپلز پارٹی کی حکومت سے جب انکی پانچ سال کی کارکردگی کا سوال اٹھایا جاتا تھا تو ایک ہی رام کہانی سننے کو ملتی تھی کہ ہم نے بےنظیر انکم سپورٹ پروگرام شروع کیا اور وہ عوام کے سامنے اسی ایک کارنامے کا کریڈٹ لینے کو ہر وقت تیار رہتے تھے اور2013ءکے الیکشن میں بھی انہوں نے اس پروگرام کو بھرپور طریقے سے کیش کروانے کی کوشش کی۔ بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام جو کہ 2007ءمیں شروع کیا گیا تھا ۔ جس کی مد میں تقریباً ہر بار بجٹ میں 70 ارب روپے رکھے جاتے ہیں ۔ اس پروگرام کو جب شروع کیا گیا تو ٹارگٹ یہ تھا کہ اس سے انتہائی غریب 35 لاکھ سے پچاس لاکھ تک گھرانوں کو فائدہ ہو گا ۔ جو کہ ہماری آبادی کا 15فی صد بنتے ہیں ۔ سب سے پہلے تو اس کا نام مرحومہ بے نظیر بھٹو کے نام پر رکھا گیا ، پی پی پی کی حکومت کے پاس یہ نام رکھنے کا اس صورت میں اختیار تھا کہ اگر صدر آصف زرداری صاحب اپنی جیب سے پیسہ دیتے ۔ مگر جب پیسہ پاکستان کی عوام کا ہے تو پھر یہ نام رکھنے کا جواز کسی صورت نہیں بنتا۔ دوسری طرف اس پروگرام کی شفافیت پر پہلے دن سے بہت سے حلقوں کے تحفظات تھے جو کہ وقت گزرنے کیساتھ ساتھ حقیقت کا روپ دھارے ہمارے سامنے آتے رہے۔ جن میں جعلی بھرتیوں کا سکینڈل سامنے آیا اور اس پہ پی پی پی حکومت نے خود اعتراف کیا تھا کہ بہت سے ڈاکیے پکڑے گئے تھے جو کہ لوگوں کے خود جعلی دستخط کر کے پیسے اپنی جیب میں ڈال لیتے تھے ، اس پروگرام سے مستفید ہونیوالوں کی جانب سے یہ گلے بھی سامنے آتے تھے کہ کئی خاندان ایسے تھے جن کو ایک اور دو دفعہ پیسے ملنے کے بعد چار چار مہینوں سے پیسے نہیں ملتے تھے ۔ پی پی پی کا دور حکومت ختم ہونے کے بعد جب نواز شریف کی حکومت آئی تو دونوں پارٹیوں کی باہمی قربتوں کی وجہ سے اس پروگرام کو ایک دفعہ پھر سے جاری رکھنے کا عندیہ دیا گیا اور سینیٹر انور بیگ صاحب کو اسکا چیرمین بنا دیا گیا جنہوں نے اس ادارے میں ہونیوالی کرپشن کو جب بے نقاب کر کے کرپٹ عناصر کے خلاف ٹھوس شواہد موجود ہونے کی وجہ سے کارروائی کرنا چاہی تو وزیر اعظم جناب نواز شریف نے انکے اس اقدام کو سراہنے کی بجائے ان کا استعفیٰ منظور کر لیا اور ماروی میمن کو اس کا کرتا دھرتا بنا دیا ، جو کبھی جب گلگت بلتستان کے الیکشن ہوتے ہیں تو وہاں اسکے فارم لے کر لوگوں کے ووٹ کا سودا کرنے پہنچ جاتی ہیں اور کبھی سپیکر صاحب کو انکے حلقے میں جتوانے کےلئے اس پروگرام کا بھرپور فائدہ اٹھایا جاتا ہے ۔ ابھی حال ہی میں اس حوالے سے ایک نئی کرپشن کی داستان منظر عام پر آئی ہے جس میں سوا لاکھ گھوسٹ لوگوں کا بی آئی ایس پی کے اربوں روپے ہڑپ کر نے کا انکشاف کیا گیا ہے ۔ حکومت کے پالیسی ساز لوگوں نے ہمیشہ شارٹ کٹ دھونڈنے کی کوشش کی ہے تا کہ ایک دفعہ عوام کے سامنے واہ واہ ہو جائے باقی کل کی کل دیکھی جائےگی۔ دنیا کی بڑی سے بڑی اکانومی والے ممالک کو بھی اگر دیکھیں تو کہیں بھی ایسی کوئی پالیسی یا پروگرام نظر نہیں آئیگا جس کیمطابق غربت ختم کرنے کیلئے لوگوں کے گھروں میں جا کے پیسے تقسیم کر آئیں بجائے کہ یہ کیا جاتا کہ لوگوں کو روزگار مہیا کئے جاتے، انہیں اپنے پاو¾ں پہ کھڑے ہونے کیلئے مدد دی جاتی اس سے لوگوں کو اور نئی آنیوالی نسل کو ہم بے کا ر کر رہے ہیں اور ساتھ ہی اگر کوئی رہی سہی غیرت ابھی لوگوں میں باقی ہے تو وہ بھی ختم ہو جائے اور جن لوگوں تک پیسے نا پہنچیں ان میں احساس محرومی اور بڑھ جائے ۔ پاکستان کی کل آبادی کا چار کروڑ 70 لاکھ لوگ خط غربت سے نیچے کی زندگی گزار رہے ہیں ۔ جن کو زندگی کی بنیادی سہولیات بھی مہیا نہیں ہیں ۔ اس مہنگائی کے دور میں کسی گھرانے کو1000روپیہ دینا تو بالکل اونٹ کے منہ میں زیرہ ڈالنے والی بات ہے لیکن اگر یہ ہی70 ارب روپیہ انہی لوگوں کی فلاح کےلئے لگایا جاتا تو ہم اس 70ارب سے 200 ہسپتال بنا سکتے تھے ، سو سے زیادہ ہائی سکول بنائے جا سکتے تھے ۔ 100 سے زیادہ پانی صاف کرنے کے پلانٹ لگائے جاسکتے تھے ان اقدامات سے5000 لوگوں کو ملازمتیں مل جاتیں اور ان سہولیات سے کم از کم بیس لاکھ لوگوں کو فائدہ پہنچتا اور وہ صرف ایک یا دو سال کےلئے نہیں بلکہ دیر پا ہوتا ۔ اسی طرح ایک محترم دوست نے اس حوالے ایک اور تجویز بھیجی کہ اگر ہم یہی 70 ارب روپیہ ہر سال تعلیم پر لگائیں تو ہم اگلے پانچ سالوں میں ایک کروڑ بچے سکول جا سکتے ہیں یعنی تقریباً اپنی ساری نئی نسل کو سکول بھیجنے کے قابل ہو سکتے ہیں۔ مثلاً ایک درمیانے درجے کا ہائی سکول16کمروں پر مشتمل بنانے کےلئے تعمیری لاگت ایک کروڑ روپیہ لگا لیں جس میں پانچ سو طلبہ تعلیم حاصل کر سکتے ہیں ۔ اسی طرح مختلف علاقوں میں ہم چالیس ارب روپے کی لاگت سے چار سو سکول بنا سکتے ہیں ۔ جس سے ایک سال میں بیس لاکھ طلبہ سکول جا نے کے قابل ہو سکتے ہیں ۔
اور دوسری طرف ان سکولوں کے بنا نے سے لوگوں کو روزگار ملے گا ان کی تعمیر کےلئے سیمنٹ ، سریہ درکار ہو گا جس کی مانگ بڑھے گی۔ سکولوں کے فرنیچر کو تیار کرنے کےلئے بھی کاریگر جن کے پاس کام نہیں ہے ان کو کام ملے گا ۔ جس سے ہم کتنے ہی گھرانوں کو تعلیم دینے کےساتھ ساتھ کتنے اور گھروں کے چولہے جلانے کا اہتمام کر سکتے ہیں ۔ حکومت اس پروگرام کو جاری رکھنے اور اسکے فوائد گنوانے کےلئے جو بھی تاویلیں دیتی رہے بات ساری کی ساری نیت کی ہے اگر انسان کی نیت ٹھیک ہو اور کچھ کر گزرنے کا ارادہ ہو تو چھوٹی چھوٹی مشکلیں خود آسانی کے راستے تلاش کر لیتی ہیں ۔ لیکن جب ارادہ ہی صرف اپنے لوگوں کو نوازنے ، مل بانٹ کے کھانے اور مک مکا کی سیاست کا ہو تو پھر ایسی تجاویز عمو ماً بے معنی لگتی ہیں۔ ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے ہمارے حکمران جان کے قوم کے ننھے معماروں کو تعلیم سے دور رکھنا چاہتے ہیں تا کہ کل کو تعلیم انہیں کہیں اتنا شعور نہ دے دے کہ وہ اپنے حقوق کی جنگ لڑنے کا سلیقہ سیکھ لیں اور کہیں جاگیرداروں ، وڈیروں کی برسوں کی غلامی چھوڑ کر اپنے لئے عزت سے جینے کا حق نہ مانگ بیٹھیں ۔ کاش کے ہمارے پالیسی ساز ادارے اور ان میں بیٹھے تھنک ٹینک تعلیم کی اہمیت کو سمجھ لیں اور یہ جان لیں کہ ہمارا ملک اس وقت تک ترقی نہیں کر سکتا جب تک ہمارے مستقبل کے یہ ننھے معمار سڑکوں پہ لوگوں کے آگے ہاتھ پھیلانے ، گندی نالیوں سے کوڑا کرکٹ چننے یا پھر ہوٹلوں‘ ورکشاپوں پہ دیہاڑیاں
لگانے کی بجائے تعلیم کے زیور سے آراستہ نہیں ہونگے اور یہی ستر ارب روپے حقیقت میں لوگوں کی زندگی بدل سکتے ہیں اگر ان کا صیح استعمال ہو تو۔۔۔

سارہ لیاقت....پیغام امید

سارہ لیاقت....پیغام امید

epaper

ای پیپر-دی نیشن