چارسدہ سے صدا
ایک عام تاثر ہے کہ رونا کمزور دل کی یا کمزوری کی علامت سمجھا جاتا ہے۔ مرد کو مضبوط اس لیے بھی سمجھا جاتا ہے کہ وہ کم روتے ہیں لیکن آرمی پبلک سکول کی دوسری برسی پر میں نے ہر آنکھ کو اشکبار دیکھا وہ بچے سب کے سانجھے تھے اُنکے والدین کا دُکھ ہر ماں باپ نے محسوس کیا۔ اَبھی تو وہ زخم تازہ ہیں، اَبھی تو مرہم پٹی جاری ہے، اَبھی تو ہم اُس چوٹ کے بعد کھڑے ہونے کی کوشش کر رہے ہیں کہ یکایک پھر سے دُشمن ہم پر حملہ آور ہو گیا۔باچا خان یونیورسٹی میں حملہ آوروں نے ہمارے طالب علموں پر، اُنکے اساتذہ پر لاعلمی میں حملہ کیا۔ یونیورسٹی میں تقریباً ساڑھے تین ہزار طالب علم ہیں اُس کے علاوہ اُس روز ایک مشاعرہ کا اہتمام کیا گیا تھا باچا خان نے پُرامن علاقے کےلئے اپنی زندگی وقف کی تھی اور اُنکی برسی کے قریب نہتے طالب علموں پر حملہ کرنا اَمن اور ترقی پر حملہ ہے۔ ہمارا ملک بِلاشبہ حالتِ جنگ میں ہے ہماری سالمیت کے دُشمن اَب ہماری جڑیں کمزور کر رہے ہیں۔ بچے ایک بیج کی طرح ہوتے ہیں جو کہ بڑے ہو کر ایک تنا آور درخت کی مثل ہیں۔ اگر ان کی نگہداشت ٹھیک نہ ہو‘ اِن کو توجہ‘ محبت اور سکیورٹی نہ ملے تو وہ کَملا جاتے ہیں زندگی کی دوڑ میں پیچھے رہ جاتے ہیں۔آج جو بچے اس خوف کے سائے میں پَل کر جوان ہو رہے ہیں کہ شاید سکول یا کالج جا کر ہم کبھی واپس نہ آئیں، وہ کل کو ملک کی ترقی میں کیا کردار ادا کرینگے؟ باچا خان یونیورسٹی میں شہدا کی تعداد بیس سے زیادہ ہے ہر ایک کی الگ کہانی۔ کتنے خاندان اُجڑ گئے، کتنے والدین کے خواب ٹوٹ گئے‘ بکھر گئے اور یہ وہ دل جان سکتا ہے جن کے پیارے ناحق اس جنگ کی نظر ہوئے ہیں۔ ساری زندگی ایک کرب اور تکلیف جو کہ کبھی بھی ختم نہیں ہوتی‘ مانند پڑ جاتی ہے لیکن آتی ضرور ہے۔ آخر کب تک خوف کی وجہ سے سکول بند رہیں گے۔ حکومت نے نیشنل ایکشن پلان کے تحت جو بیس نکات بنائے‘ اُن میں سے کون کون سے نکات ہیں‘ جن پر عمل درآمد ہوا؟ بِلاشبہ یہ وقت تنقید برائے تنقید کا نہیں لیکن ہم کو اَپنا محاسبہ کرنے کی ضرورت ہے۔ NAP پر عمل درآمد کرتے ہوئے دہشتگردوں کو جیلوں میں سزائیں دی گئیں ہیں اور فوجی عدالتوں کا قیام عمل میں لایا گیا ہے لیکن دہشت گرد تنظیمیں اَبھی تک نام تبدیل کر کے کام کر رہی ہیں‘ کالعدم تنظیمیں بھی نام بدل کر اَبھی تک موجود ہیں۔ مذہبی فرقہ واریت اور اقلیتوں کو تحفظ دینے کا اعادہ کیا گیا لیکن افسوس کی بات ہے کہ ملک میں فرقہ واریت عروج پر ہے اور مذہب کے نام پر انتہا پسندوں کی روک تھام نہیں کی جا رہی۔ باچا خان یونیورسٹی اَٹیک میں غیر قانونی سِمز کا استعمال ہوا۔ NACTA کو مو¿ثر بنانے کی اشد ضرورت ہے اسکے علاوہ اہم ترین ہدف مدارس کی رجسٹریشن ہے اور اُنکے فنڈز کہاں سے آتے ہیں اور کہاں آڈٹ ہے، جب تک اس پر عمل نہیں ہو گا مذہبی انتہا پسندی جاری رہے گی۔ علماءکرام ملک میں اَمن کےلئے بہت اہم کردار ادا کر سکتے ہیں۔ مدارس میں نصاب کے حوالے سے اصلاحات کی ضرورت ہے۔ پاکستان میں اَمن تب تک ممکن نہیں جب تک ہمارے ہمسائے ممالک میں اَمن نہیں ہوتا۔ افغانستان کے ساتھ بارڈر کو سکیور کیا جانا چاہیے اور ہمارے ہاں قیام پذیر افغان مہاجرین کو رجسٹرڈ کر کے اُنکا ڈیٹا نادرا میں موجود ہونا چاہیے۔ بلوچستان کے حقوق ایک بہت بڑا مسئلہ ہیں اور وہاں کے لوگوں میں بے چینی اور احساس محرومی موجود ہے، فاٹا کے عوام کےلئے خاص ترقیاتی پیکج دینا چاہیے اور اُن کو ترقی دیکر ملک کے ساتھ جوڑنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ اس وقت ہم کو ایک قوم کی حیثیت میں اس جنگ کو لڑنا ہے ہر فرد کو ایک ذمہ دارر شہری کی حیثیت سے اپنا فرض سمجھ کر اِن دہشتگردوں کےخلاف کردار ادا کرنا ہو گا۔ ہمیشہ قطرہ قطرہ دریا بنتا ہے ہمیں ذہن صاف کرنے کی ضرورت ہے۔ جس طرح ہمارے لیے لوگوں کو برین واش کیا گیا ہمیں اپنی نوجوان نسل کو بتانا ہو گا یہ لوگ مُلک کے‘ دین کے‘ ترقی کے دشمن ہیں اور اُن کیخلاف لڑنا جہاد ہے۔ جو لوگ اُس جنگ میں شہید ہوں اِن کو پیسے دینے کے ساتھ قومی نشان سے نوازنا چاہیے۔ ہماری حکومت کو اِن دہشتگردوں سے دو قدم آگے سوچنا ہو گا‘ تو ہم جانوں کے ضیاع سے بچ سکتے ہیں۔ افسوس ہے کہ Threat Alert ہوتے ہوئے بھی خیبر پی کے حکومت نے تعلیمی اداروں کو اُتنی سکیورٹی نہ دی، بہت بڑا لمحہ فکریہ ہے ہمارے مستقبل کےلئے۔ اور ایک سوالیہ نشان ہے ہمارے نیشنل ایکشن پلان پر۔