عوام کے مسائل کون حل کریگا؟
دہشتگردی کا خاتمہ ہماری اولین ترجیح ہے۔ لوڈشیڈنگ کا خاتمہ اولین ترجیح ہے۔ اب ہم نے خوددار قوم بننا ہے کشکول توڑ دینگے۔ جب تک آخری دہشتگرد ختم نہ ہوا اور لوڈشیڈنگ کا خاتمہ نہ ہوا ہم چین سے نہیں بیٹھیں گے۔ یہ ”دعوے“ اور ”نعرے“ صدر مملکت‘ وزیراعظم‘ وزیراعلیٰ اور دیگر حکومتی وزیروں و مشیروں کی زبانوں پر ”وِرد“ کی مانند ہر لمحہ جاری و ساری رہتے ہیں۔ اڑھائی سال گزر چکے ہیں ایک بھی مسئلہ حل نہیں ہوا اور ”ترجیحات“ بھی بدل چکی ہیں۔ باچا خان یونیورسٹی میں طلباءو طالبات دیگر افراد سمیت 21 معصوم شہری مار دیئے گئے۔ وزیراعظم صاحب کے بقول یہ آسان ہدف تھا۔ تو جناب عوام کے جان و مال کی حفاظت آپکا فرض اولین تھا۔ ایک لاکھ سے زائد شہید ہو چکے ہیں یہ سب ان کیلئے آسان ہدف ہی تھے۔ یا تو ہر پاکستانی کے گھر کے باہر بھی 500 حفاظتی نگران کھڑا کر دیں پھر یقیناً ان کیلئے مشکل ہدف ہو گا۔ ”جس نے ایک انسان کو قتل کیا اس نے پوری انسانیت کو قتل کر دیا“ اور یہ کہ حکمران سے اسکی رعیت (رعایا) کے بارے میں پوچھا جائے گا“ (21) افراد یونیورسٹی میں مار دیئے گئے وزیراعظم صاحب دوروں پر ہیں۔ ایران اور سعودی عرب میں صلح کرانے میں مگن تھے۔ دہشتگرد ایک ماریں یا درجنوں شہید کر دیں حکومت کا کام صرف ”مذمتی“ بیانات دینا ہوتے ہیں؟ عملی اقدامات حکومت یہ کر رہی ہے کہ لال مسجد کے ”مولوی“ کیخلاف کئی F.I.R درج ہیں۔ سہولت کاری کے واضح ثبوت ہیں اسے گرفتار کیوں نہیں کیا جا رہا؟ دوسری طرف ہمارے ازلی و ابدی دشمن ملک کے دہشتگرد وزیراعظم ”مُوذی“ کو نوازشریف صاحب خفیہ طور پر پیرس میں گپ شپ کے بعد لاہور جاتی عمرہ نواسی کی شادی پر مدعو کرتے ہیں۔ انڈیا اور کشمیر میں ہزاروں مسلمانوں کے قاتل ”موذی“ کو مدعو کرنا کیا یہ ”سہولت کاری“ کے زمرے میں نہیں آتا۔ کچھ تو خدا کا خوف کریں جناب سرمایہ کاروں کو دعوتیں دینے کی فکر تو آپ کو لاحق ہے اپنے شہریوں کی جانوں کو تحفظ تو فراہم کیجئے۔ پٹھان کوٹ واقعہ ہوا نواز حکومت نے ”موذی“ حکومت کو ہر قسم کا تعاون دیا۔ تحقیقاتی ٹیم بھیجنا چاہی کہ تو بھارتی وزیر دفاع نے دھمکایا کہ خبردار ادھر کوئی آیا اور یہ کہ ایک سال میں دنیا نتائج دیکھے گی۔ سپریم کورٹ کے حکم کے باوجود قومی زبان کو نافذ نہیں کیا گیا نہ ہی کیا جائیگا۔ ”وزیر ڈالر“ ہر تقریب میں انگریزی جھاڑتے ہیں۔ کسی نے ان کیخلاف توہین عدالت کا نوٹس بھی نہیں لیا۔ اب ترجیحات بدل گئی ہیں۔ نواز شریف لبرل‘ ترقی پسند اور روشن خیال پاکستان تو بنانا چاہتے ہیں اب کہیں بھی کبھی بھی اسلامی نظریاتی پاکستان کا تذکرہ نہیں کرتے۔ نوازشریف صاحب نے وزیراعظم بننے کے بعد فرمایا تھا کہ وزیراعظم ہا¶س نہیں عوام میں ہی بیٹھوں گا“ اب حال یہ ہے کہ وزیراعظم صاحب کو عوامی مسائل سے کوئی سروکار ہی نہیں ہے۔ کشکول توڑنے کے دعوے داروں نے اڑھائی سال میں 2759 ارب روپے قرضہ لیا ہے اور بااثر افراد کا 30 ارب کا قرضہ معاف بھی کیا گیا ہے۔ عوامی مسائل جوں کے توں ہیں۔ نہ گیس آتی ہے نہ بجلی۔ غربت بیروزگاری جوں کی توں ہے۔ 2759 ارب کا مصارف کیا ہے؟ یہ خطیر رقم کہاں لگائی گئی یا حکومتی عہدیداروں کو نوازا گیا ہے؟ وزیراعظم ”وزیر ڈالر“ اسحاق ڈار‘ حمزہ شہباز جو آئے روز لوڈشیڈنگ کے خاتمے کی نوید سناتے رہے ہیں۔ اب شدید سردی میں بارہ بارہ گھنٹے بجلی نہیں ہوتی خواجہ آصف نے گذشتہ دنوں حقیقت پر مبنی سچ بول ہی دیا ہے ”کہ 2018ءتک بجلی بحران پر قابو پانا ممکن ہی نہیں ہے اور یہ کہ ہمارے اڑھائی سالہ دور میں صرف 18 میگاواٹ بجلی نیشنل گرڈ میں داخل کی گئی اور 6 مختلف ٹیکس بلوں پر عائد کئے گئے“ خواجہ آصف نے یہ بتانے میں شرمندگی محسوس کی ہو گی کہ ایک بار میٹر ریڈر کم ہونے کا بہانہ بنا کر ہم نے فراڈ سے زیادہ بل عوام کو بھیج کر 80 ارب بھی بٹورے تھے۔ عوام چاہتے ہیں کہ ”خادم اعلیٰ“ صاحب اب بھی اگر مینار پاکستان کے سائے تلے موم بتی کے ساتھ کوئلوں کی انگیٹھی جلانے کا بھی مظاہرہ کریں شاید وفاقی حکومت جو کہ اب انکے بھائی وزیراعظم ہیں ان کو عوام پر ترس آ ہی جائے۔ بہرحال اڑھائی سال گزر گئے ہیں۔ وزیراعظم صاحب کو غیر ملکی دوروں سے فرصت ہی نہیں ہے۔ ایک طرف اوباما کی یہ پشین گوئی کہ پاکستان آئندہ کئی دہائیوں تک عدم استحکام کا شکار رہے گا“ خاکم بدہن کہ ایسا ہو۔ مگر وزیراعظم اور سرتاج عزیز کی محض باتوں سے خیر کی توقع رکھنا عبث ہے۔ عملی اقدامات کی ضرورت ہے۔ دوسری طرف نواز حکومت دہشت گرد مودی کے سحر سے باہر نکلنا ہی نہیں چاہتی بلکہ اس پر فریفتہ ہے۔ بہرحال عوامی مسائل کا سدباب موجودہ حکومتی ترجیحات میں نظر نہیں آتا۔ اہم خبر یہ کہ خیبر پختونخواہ حکومت نے صوبے کے تمام اساتذہ کو اسلحہ لائسنس جاری کرنے کا آغاز کیا ہے۔ کچھ دیر بعد طالب علم بھی تقاضا کرینگے۔ پھر انہیں بھی دیئے جائینگے۔ پھر ہمیں بیرونی دشمن کی ضرورت ہی نہیں رہے گی۔ کیا یہ دہشتگردی کے خاتمے کا حل ہے؟ ہمارا سوال یہ ہے کہ جناب وزیراعظم صاحب اقتدار میں آنے سے قبل الیکشن کے دوران جو وعدے آپ نے کئے تھے۔ وہ پورے کون کریگا؟ اڑھائی سال میں عوامی ایک مسئلہ بھی عملی طور پر آپ حل نہیں کر سکے اگلے اڑھائی سال بھی کیا یوں ہی گزر جائینگے؟