”بانو قدسیہ ایک عہد ساز شخصیت“
محترم ڈاکٹر اجمل نیازی نے اپنے کالم میں لکھا تھا کہ ”پاکستان کی خواتین کو ایک بار ضرور بانو قدسیہ سے ملنا چاہئے۔ ناول کو نئی جہت، نیاانداز اور نئے زاویئے عطا کرنے والی بانو قدسیہ سے ایک انٹرویو کے سلسلہ میں جب میں ان سے جاکر ملی تو انتہائی سادہ، پرخلوص اور مشفق خاتون اُن کے اندر مجھے وہ خاتون ملی جو اپنی صلاحیتوں اور قابلیتوں کی انتہائی بلندیوں کے باوجود انسانیت کے درس کو اہمیت دیتی ہیں۔ لگ بھگ نوے سال کی عمر ہونے کے باوجود ان کی آنکھوں میں عزم اور حوصلہ اسی طرح جوان تھا کہ جس حوصلے نے ان سے ”راجہ گدھ“ جیسا شاہکار لکھوا ڈالا۔ انسانی، نفسیاتی، معاشرتی پہلوﺅں کو چھوتی ہوئی اِس کتاب میں کہیں کہیں بانو قدسیہ اپنے پورے وجود اور قد کے ساتھ نظر آتی ہیں۔ وہ اِس بات کو تسلیم کرتی ہیں کہ ”راجہ گدھ“ کسی غیبی طاقت نے ان سے لکھوائی۔ بقول ان کے کہ انہیں باقاعدہ طور پر یہ آوازیں سنائی دیں کہ وہ راجہ گدھ لکھیں۔ میرے لئے اس وقت یہ مشکل ہے کہ ان کی خوشبو کی مانند پھیلتی ہوئی سوچ کا تعین کروں یا ”راجہ گدھ“ کے معاشرے پر بحیثیت مجموعی اثرات کو متعین کروں۔ بانو آپا تعین اور متعین کے بیچ کی مسافر ہیں اور ایسا مسافر جو خاموشی سے اپنے اردگرد کے ماحول سے بہت کچھ اپنے اندر جذب کرنے کی صلاحیت رکھتا ہو اور پھر ان اثرات کو صفحہ قرطاس پر بکھیرنے کی صلاحیت رکھتا ہو۔ سہیل احمد خان بھی اسی سفر کے قائل ہیں لیکن یہ سفر باطنی سفر ہے۔ بانو قدسیہ کے ہاں اندرونی اور بیرونی کیفیات موجود ہیں۔ برسوں کے علمی اور ادبی سفر کے بعد ان کے اندر وہ ٹھہراﺅ اور طمانیت آگئی ہے جو کسی بھی مسافر کو منزل پانے کے بعد حاصل ہوتی ہے۔
یہ دل پانے کو ہے منزل
چلو کچھ آسرا کرلیں
لیکن بانو آپا کے لہجے میں اور زیادہ استحکام اور عظمت موجود تھی اور شاید یہی وجہ ہے کہ محترم اجمل نیازی اکثر یہ کہتے ہیں کہ پاکستان کی لڑکیوں کو زندگی میں ایک بار بانو قدسیہ سے ضرور ملنا چاہئے۔ ان کی سوچ کے زاویئے کبھی معاشرتی رویوں کی عکاسی کرتے ہیں، کبھی نفسیاتی پہلوﺅں کو موضوع سخن بناتی ہیں اور کبھی روحانی راستوں کی تلاش میں سرگرداں نظرآتی ہیں۔ روحانیت کے اس سفر میں وہ قدرت اللہ شہاب کو ”مردِابریشم“ لکھ کر خراج تحسین پیش کرتی ہیں۔
کبھی اشفاق احمد کی صلاحیتوں اور خوبیوں پر بحث کرتے ہوئے اُن کو یاد کرکے آنکھیں بھگوتی نظر آتی ہیں۔ ایک ناتواں جسم اور نوے سال کے لگ بھگ عمر کی اِس شخصیت کی آنکھوں میں آج بھی وہ تڑپ اور لگن موجود ہے جو کسی بھی تخلیق کے لئے بہت ضروری ہوتی ہے۔ ممتاز مفتی نے کہا تھا کہ میری جسمانی عمر ساٹھ سال، ذہنی عمر 35 سال اور جذباتی عمر سولہ سال ہے۔ میرا خیال ہے کہ بانو آپا کا حوصلہ بھی اِس بات کا غماز ہے کہ وہ اندر سے بھرپور احساسات، خیالات اور تعمیری رویوں کی عورت ہیں۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ وہ کسی انسان کے رویئے سے مایوس نہیں ہوتیں۔ خوبیاں اور خامیاں ہر انسان میں موجود ہوتی ہیں۔ اسی طرح کبھی کبھار ایسا بھی ہوتا ہے کہ آپ کا شدید ترین دشمن بھی آپ کا دوست بن جاتا ہے۔ ان کے نزدیک زندگی کبھی رنگ برنگے پھولوں میں ڈھل جاتی ہے اور کبھی غم کا لبادہ اوڑھ لیتی ہے۔ کبھی دیوانگی تک پہنچا دیتی ہے اور کبھی مجذوبیت کے پیرائے میں ڈھل جاتی ہے۔ ہر انداز اور پہلو کے اپنے تقاضے ہیں۔ اب انسان پر منحصر ہے کہ وہ ان تقاضوں کو کیسے نبھاتا ہے اور کس حد تک اپنا تعلق زمینی اقدار، روحانیت اور اپنے وجود کے تشخص کے لئے استعمال کرتا ہے۔ جہاں کہیں انسان اپنے مقصد سے ہٹ جاتا ہے اور "Misfit" ہوجاتا ہے، وہاں سے زوال شروع ہونے لگتا ہے۔ معاشرتی زوال کی بھی یہی وجہ ہے۔ آج ہم اسی زوال کا شکار ہیں۔ بانو آپا کا کہناہے کہ کتاب پڑھنے کا رواج ختم ہوا، ساتھ ہی اندر سے رابطہ منقطع ہوا، کتاب باطنی سفر کی تلاش میں مددگار ثابت ہوتی ہے۔ ڈاکٹر سہیل احمد نے یہ سفر ”داستانوں کی علامتی کائنات“ کے ذریعے کیا۔ ممتاز مفتی نے یہ سفر ”تلاش“ لکھ کر کیا۔ بانو قدسیہ نے ”راجہ گدھ“ لکھ کر جس سفر کا آغاز کیا، کمال کی بات تو یہ ہے کہ اس سفر کا انجام نہیں ہے۔ انسانی زندگی کے طلسماتی راز کھلتے چلے جاتے ہیں اور انسان اس حقیقت کی تلاش میں رہتا ہے جو اسے معبودیت کے قریب لے جاتی ہے۔ میرا ذاتی تجزیہ یہی ہے کہ اسی سفر نے چاروں ستونوں قدرت اللہ شہاب، ممتاز مفتی، اشفاق احمد اور بانو قدسیہ کا روحانیت سے رشتہ جوڑے رکھا۔ ان کو ودیعت کی گئی صلاحیت درحقیقت انسانیت کی فلاح کا پیغام ہی تھا اور اسی فلاح کی معاشرے کو ضرورت ہے۔ ڈاکٹر اجمل نیازی صاحب نے اسی پیغام کو اس انداز میں پیش کیا
عہد غفلت میں مجھے مثل سحر بھیجا گیا
دیر تک سوئے ہوئے لوگوں کے گھر بھیجا گیا