ویلڈن! چوہدری نثار علی خان
میں گزشتہ کئی کالموں میں اس بات کا تذکرہ کرتا آیا ہوں کہ یہاں اپوزیشن نہیں بلکہ دو گروہوں کی بندر بانٹ ہے اور جب تک ملک میں مک مکا کی سیاست پر یقین رکھنے والے لوگ بیٹھے ہیں ملک کبھی ترقی کے زینے پار نہیں کر سکتا اور نہ ہی ہمیں خارجیوں سے چھٹکارہ حاصل ہو سکتا ہے اور نہ ہی اکیلی فوج اور ہمارے سیکیورٹی ادارے خاطر خواہ اور دیر پا کامیابیاں حاصل کر سکتے ہیں اور نہ ہی عام پاکستانی ملک میں یقینی امن و امان دیکھ سکتا ہے کیونکہ وطن عزیز میں سازشیوں کا ایسا ٹولہ براجمان ہے جو اپنے مفادات کی خاطر کسی حد تک بھی جا سکتا ہے۔ اسی مک مکا کی سیاست کرنیوالوں کیخلاف ایک عرصے بعد وزیرداخلہ چوہدری نثار علی خان نے ایک پریس کانفرنس میں نہایت شستہ اردو، فصیح و بلیغ استعاروں اور محاوروں کیساتھ پی پی پی والوں کو آڑے ہاتھوں لیا۔ چوہدری نثار علی خان کے جوابی حملوں میں اس قدرکاٹ تھی کہ پیپلزپارٹی کے سرکردہ رہنمائوں کے پورے جیش کو رات ہونے سے پہلے جواب دینے کیلئے مجبور ہونا پڑا ان میں نثار کھوڑو، شیری رحمٰن، مولا بخش چانڈیو، لطیف کھوسہ، اعتزاز احسن، مراد علی شاہ، پیر مظہرالحق، مشتاق اعوان اور کئی محرومین التفات شامل تھے تاہم سرکاری قائد حزب اختلاف سید خورشید احمد شاہ کو محسوس ہونے و الی چبھن دیدنی تھی۔
ویسے عمومی طور پر ہمارے ہاں سیاستدان عام طور پر تین قسم کے بیانات داغنے پر ہی اکتفا کرتے ہیں۔ ’’ہنگامی بیانات، الزامی بیانات ، دشنامی بیانات‘‘۔ بلکہ جب ان کا بلڈ پریشر ہائی ہو اور دشمن کیخلاف وہ برہنہ جارحیت پر اتر پڑیں تو پھر انکے بیانات ’’ون سٹیپ پرموٹ‘‘ ہو کر خون آشامی بیانات ہو جاتے ہیں۔ ان بیانات کو پڑھنے اور سننے والے قارئین و ناظرین کو اپنے قائدین، قائدین کم اور بھانڈ زیادہ محسوس ہونے لگتے ہیں۔بقول شاعر …ع
یہ مے خانہ ہے یہاں پگڑی اچھلا کرتی ہے
ان بیانات میں جس قسم کی زبان، پیرایہ، اسلوب، لہجہ ، انداز اختیار کیا جاتا ہے، اس قسم کی زبان اور الفاظ تو بھلے وقتوں میں ’’بالانشین‘‘ او’’تھڑے باز بازاری عورتیں بھی استعمال کرتے ہوئے شرماتی تھیں۔
بہرکیف چوہدری نثار علی خان کو سلام کہ انہوں نے باطل کے سامنے کلمہ حق کی آواز بلند کی اور انہوں نے دہشتگردی اورشدت پسندی کیخلاف جنگ میں کامیابیوں کو اجاگر کیا، سول اور ملٹری تعلقات کار میں رخنہ پیدا ہونے والی افواہوں کو مسترد کر دیااور اپوزیشن لیڈر سید خورشید شاہ سمیت پی پی پی کے بعض لیڈروںکے طرزعمل کو نہ صرف ہدف تنقید بنایا بلکہ انہیں حاصل ہونیوالی مراعات اور ’’مک مکا‘‘ کی ہنڈیا بیچ چوراہے پھوڑ دی، چوہدری نثار علالت کے بعد پوری طرح ہشاش بشاش نظر آرہے تھے تاہم کمر کی تکلیف کی وجہ سے انہوں نے روسٹرم پر کھڑے ہو کر بات چیت کے بجائے کرسی پر اضافی کشن رکھ کر گفتگو کی اور لگی لپٹی بغیر کھل کر باتیں کیں اور حالیہ دنوں میں اپوزیشن لیڈر ، وزیر اعلیٰ سندھ، آصف زرداری ، فریال تالپورسمیت پی پی پی کے الزامات کو بھر پور جواب کے ذریعے ملیامیٹ کر دیا اور کہا کہ چند سیاسی عناصر کو درد کچھ اور ہے اور غصہ ایف آئی اے اور نیشنل ایکشن پلان پر اتارتے ہیں، تکلیف پیٹ میں ہے اور رونا سردرد کا روتے ہیں، اگر کسی کو ڈاکٹر عاصم کے حوالے سے تکلیف ہے توپھر کھل کر بات کریں، چوہدری نثارنے پیپلز پارٹی کویہ واضح پیغام دیا کہ پی پی پی کیخلاف کرپشن کیسز سے ہر گز پیچھے نہیں ہٹوں گا، ایف آئی اے نے پی پی پی کی ٹاپ لیڈر شپ کیخلاف میگا کرپشن کے 7کیسز تیار کر لئے ہیں اب ایف آئی اے حتمی این اوسی کی منتظر ہے ، چوہدری نثار نے آصف علی زرداری ، فریال تالپور ، بلاول بھٹو کا نام لیے بغیر کہا کہ پچھلے چند دن سے ایک پارٹی کے پورے کے پورے خاندا ن والے ون پوائنٹ ایجنڈے کے تحت جھوٹ کی کنکریاں مجھے مار رہے ہیں۔انہوں نے مولا بخش چانڈیو ، نثار کھوڑواور دوسروں کے اس الزام کا بھی جواب دیا کہ وزیر داخلہ ایک ماہ سے سندھ کا دورہ نہیں کررہے، سخت مزاج اورانا پرست ہیں ،کبھی کہا جاتاہے کہ پی ایم کی بات نہیں مانتے، یہ سب غلط بیانی ہے، وزیر اعلیٰ شاہ صاحب ایپکس کمیٹی کی میٹنگ کے حوالے سے غلط بیانی کر رہے ہیں، اگر میری وضاحت سامنے آگئی تو انہیں کہنے کو جواب نہیں ملے گا ، یہ ناکام سیاستدان جن کے پلے کچھ نہیں، چوہدری نثار نے کہا ہے کہ نیشنل ایکشن پلان پر تنقید تو کرتے ہیں مگر کیا بتائیں گے کہ انہوں نے کوئی پلان بنایا یا پالیسی دی تھی۔
انہوں نے ملک میں موجود ’’مستحق‘‘ شخصیات اور پارٹیوں کی خوب درگت بنائی ایک لمحہ کیلئے تو ایسا لگا کہ چوہدری نثار شاید اسی پریس کانفرنس میں ہی اپنی پارٹی کو خیر آباد کہہ دینگے۔۔۔ یہ بات تو طے ہے کہ چودھری نثار اپنی لگن، مستقل مزاجی اور بیباکی کی وجہ سے اپنوں غیروں سب کی آنکھ میں کھٹکتے محسوس ہوتے ہیں۔ کبھی تو انکی اپنی جماعت کے اندر کئی رہنمائوں و وزراء سے اختلافات کے قصے منظر عام پر ہوتے ہیں تو کبھی اپوزیشن کی دُم پر وہ پائوں رکھ کر اپنے مخالفین میں مزید اضافہ کر لیتے ہیں اور اب اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے کہ انہوں نے خورشید شاہ سمیت ساری پیپلز پارٹی کو اپنے مخالفین میں شامل کر لیا ہے۔ میرے باوثوق ذرائع کے مطابق وہ بظاہر تن تنہا لڑائی لڑ رہے ہیں مگر انہیں وزیر اعظم کا مکمل اعتماد حاصل ہے۔ یہ بھی بڑی تکلیف دہ بات ہے کہ ہمارے دیگر وفاقی وزراء ماسوائے وزیر دفاعی پیداوار رانا تنویر کے ان کا دفاع کرتا ہوا کوئی نہیں دکھائی دے رہا۔ وفاقی وزیر رانا تنویر نے کہا ہے کہ خورشید شاہ کئی مرتبہ اپنے بھائی کی سفارش کیلئے آتے تھے اور اگر خورشید شاہ کیخلاف مقدمات بنتے ہیں تو سب سے پہلا گواہ وہ خود ہوں گے۔
یہ حقیقت ہے کہ جس اندزا اور کمٹمنٹ سے وہ اپنا کام کر رہے ہیں اس میں مخالفت ہونا بعید از قیاس نہیں۔ ہمارے سیاستدانوں کی ہٹ دھرمی دیکھیے کہ ایک جنگ جو ملک کے تمام ادارے خصوصاََ پاک فوج فرنٹ لائن پر جا کر لڑرہی ہے اس میں کسی بھی قسم کے دہشتگردی کے سانحے کی ذمہ داری گھما پھرا کر چوہدری نثار کے کھاتے میں ڈال دی جاتی ہے۔ حالانکہ پیپلز پارٹی کے ادوار میں لاہور اسلام آباد جیسے شہر بھی دہشت گردی سے محفوظ نہیں تھے۔ چوہدری نثار کی یہ بات بھی درست ہے کہ جنہوں نے نیشنل ایکشن پلان پڑھا ہی نہیں وہ اس پرتبصرے کر رہے ہیں اور انہوں نے اپنی 5 سالہ حکومت سو کر گزاری، آپریشن ضرب عضب کو نیشنل ایکشن پلان کا حصہ قراردیا جارہا ہے لیکن نیشنل ایکشن پلان میں فوج کا کردارمحدود ہے۔ اور رہی بات اپوزیشن کی تو پاکستان میں ہر کوئی جانتا ہے کہ اپوزیشن کیا گل کھلا رہی ہے۔ بھارت کے کافر سیاستدان متحد ہو کر کرپشن کیخلاف گرینڈالائنس تشکیل دے سکتے ہیں جبکہ ہمارے سیاسی سول پروپرائٹرز اک ایسے گرینڈ الائنس کیلئے ہاتھ پاؤں مار رہے ہوتے ہیں جس کا کوئی معنی خیز ٹارگٹ ہی نہیں ہوتا۔ اسی نوعیت کی ایک ذاتی لڑائی اور الزامات کی بوچھاڑ 2014ء کے وسط میں دھرنوں کے دوران چوہدری نثار اور چوہدری اعتزاز احسن کے درمیان ہوئی تھی اس وقت بھی غیر جانبدار حلقوں نے دونوں کو اسکا برابر کا ذمہ دار قرار دیا تھا اور وزیراعظم نے بڑھ کر معاملے کو رفع دفع کرایا۔ میں سمجھتا ہوں کہ اب بھی وزیر اعظم کو چوہدری نثار علی اور خورشید شاہ دونوں کے درمیان پیدا ہو جانے والی تلخی جس نے اہل وطن کے ذوق لطیف پر منفی اثر ڈالا ہے اور منتخب جمہوری نمائندوں کے وقار کو متاثر کیا ہے ختم کرانے کیلئے آگے بڑھنا چاہیے اور اس ناگوار صورتحال کو مزید تقویت پکڑنے سے پہلے ختم کرا دینا چاہیے۔
بہتر ہے کہ تمام سیاسی رہنما ایک دوسرے کا احترام کرنا سیکھیں۔ اپنے اختلافات کو اصولی اور بہتر سے بہتر پالیسی کے نفاذ کی جنگ تک محدود رکھیں۔ ایک دوسرے کی ذات پر کیچڑ اچھالنے کی روایت کو ہمیشہ ہمیشہ کیلئے دفن کر دیں اس میں انکی اور ملک و قوم سب کی بھلائی کا راز مضمر ہے۔ اور رہی بات چوہدری نثار کے جذبہ حب الوطنی کی تو میرے خیال میں انہیں ان سب کرپٹ افراد کی پروا کیے بغیر وطن عزیز کے بارے میں سوچنا چاہیے ملک کے وسیع تر مفاد میں پیپلز پارٹی کی کرپشن کی داستانوں کو قوم کے سامنے آشکار کرنا چاہیے تاکہ ملک میں صاف سیاست کو فروغ دیا جاسکے۔ اور انکی اپنی صفوں میں بھی جو کالی بھیڑیں ہیں انہیں بھی قوم کے سامنے لایا جائے اور ہمارا یقین ہے کہ قوم کے لوگ قوم کے لوگوں میں سے ہی کسی اچھے شخص کو تلاش کرنے میں کامیاب ہو جائینگے، آئیں ملک و قوم کی ترقی اور خوشحالی کیلئے اور اس کی تقدیر بدلنے کیلئے میدان عمل میں اُتریں اور اس ملک کو کرپشن زدہ لوگوں سے پاک کریں۔ پاکستانی قوم انکے اس جذبے کو خراج تحسین پیش کرتی ہے اور دعا گوہ ہے کہ ان کی یہ حب الوطنی صدا قائم و دائم رہے(آمین)