اتوار‘20 ؍ ربیع الثانی1437ھ‘ 31 ؍ جنوری 2016 ء
پنجاب اسمبلی میں اپوزیشن کی پٹرول 40 روپے فی لٹر کرنے کی قرارداد
اپوزیشن کی طرف سے یہ تو سراسر حکومت کی دکھتی رگ پر ہاتھ رکھنے کے مترادف ہے۔ کیونکہ عالمی منڈی میں پٹرول کی قیمت چاہے کتنی کم ہو۔ ہمارے حکمران اپنا خزانہ یعنی اپنی جیبیں بھرنے کے شغل سے باز نہیں آتے۔ عوام کو ریلیف پہنچانا ان کے نزدیک ایسا گناہ ہے جس کی معافی نہیں۔ ہاں جب یہ لوگ اپوزیشن میں ہوں تو گلے پھاڑ پھاڑ کر عوام کو ریلیف دینے کے مطالبات کرتے رہتے ہیں۔ عالمی سطح پر پٹرولیم مصنوعات کی قیمت جس طرح کم ترین سطح پر آئی ہے اس حساب سے تو اپوزیشن کی طرف سے پٹرول کی قیمت 40 روپے فی لٹر کرنے کی قرارداد پر مبنی حقیقت ہے۔ مگر ڈر ہے حکمرانوں کے دل کی دھڑکن یہ ریٹ سن کر کہیں پٹرول کی قیمت کی طرح نیچے نہ آجائے۔ اپوزیشن کو چاہیے کہ وہ تھوڑی بہت رعایت کی اجازت برقرار رکھے۔ تاکہ کہیں کوئی بڑا نقصان نہ ہو جائے۔
چند روز پہلے تک افواہ تھی کہ حکومت 10روپے تک پٹرول کی فی لٹر قیمت کم کرے گی مگر ’’اے آرزو بسا کہ خاک شدہ‘‘ حکومت کی تان 5 روپے پر ٹوٹی ہے۔ ظاہر ہے اس کا مطلب واضح ہے کہ حکومت پٹرول کی قیمت میں کمی کرکے عوام کو رعایت دینے پر تیار نہیں۔ یہ تو ازحد مجبوری میں اٹھایا گیا قدم ہے۔
اب دیکھنا ہے اپوزیشن والے حقیقی کمی کیلئے کونسا راستہ اختیار کرتے ہیں کیونکہ مثل مشہور ہے کہ جب سیدھی انگلیوں سے گھی نہ نکلے تو انگلیاں ٹیڑھی کرنی پڑتی ہیں۔ یہ پانچ روپے اونٹ کے منہ میں زیرہ ہیں۔ جس سے عوام کو خاطر خواہ فائدہ نہیں ہو گا اور حکومت کے منافع میں کوئی خاص کمی بھی نہیں ہو گی۔ اب دیکھتے ہیں اپوزیشن والے قیمت کم کرانے کے لئے کونسا دھرنوی نسخہ استعمال کرتے ہیں۔
٭…٭…٭…٭
بلاول نے عمران اور نواز شریف کا کارٹون جاری کر دیا
بھئی یہ تو بُری بات ہے۔ یہ دونوں بزرگ سیاستدان عمر میں بلاول جی کے والد سے بڑے ہیں اگر یہ ناراض ہو گئے تو بلاول کیلئے سیاست میں مزید مشکلات پیدا کر دیں گے۔ میاں صاحب اور آصف صاحب تو فرینڈلی اپوزیشن بنے ہمیشہ ایک دوسرے کا ساتھ دیتے نظر آئے ہیں۔ انہیں بھی نہ بخشا بلاول نے عمران خان البتہ دونوں کی خوب خبر لیتے رہتے ہیں۔ اسکی بات علیحدہ ہے۔
کارٹون میں عمران خان اور نواز شریف کو سابق صدر ضیاء الحق کی گود میں بیٹھے دکھایا گیا ہے جبکہ طالبان انکے پیچھے اسلحہ اٹھائے اور مولوی حضرات پاس بیٹھے ہیں۔ گویا بلاول زرداری نے ایک تیر سے چار شکار کرنے کی کوشش کی ہے۔ اب کہیں یہ شغل انہیں مہنگا نہ پڑ جائے۔
کیونکہ طالبان کے حقیقی خالق ضیاء الحق نہیں ذوالفقار علی بھٹو اور انکے وزیر آفتاب شیرپائو مانے جاتے ہیں ہاں بس ضیاء الحق کے دور میں طالبان نے اور نواز شریف نے عروج پایا عمران خان نے بھی اسی دور میں اڑان بھرنا سیکھی۔
اب کوئی دل جلا کہیں بلاول کے نانا ذوالفقار علی بھٹو کا انکے منہ بولے ڈیڈی صدر ایوب خان کے ساتھ کارٹون بنا کر جوابی کارروائی نہ کر بیٹھے کیونکہ پیپلز پارٹی کے بانی نے بھی آمریت کے گود میں پرورش پائی۔ بھٹو صاحب تو صدر ایوب کو پاکستان کا ڈیگال کہتے نہیں تھکتے تھے۔ رہی بات طالبان کی پرورش کی تو اس بارے میں…؎
یاد ماضی عذاب ہے یا رب
چھین لے مجھ سے حافظہ میرا
جیسے اشعار زبانی ازبر ہونے کے باوجود بھی ہم نے ابھی تک کوئی سبق نہیں سیکھا ورنہ آج بھی ہمارے ملک میں یوں ہمارے دشمن غیر ملکی شہری دندناتے نہیں پھرتے جنہوں نے اپنے مال کے بل بوتے پر یہاں جائیدادیں بنالی ہیں اور پاسپورٹ و شناختی کارڈ کی بدولت پوری دنیا میں دہشت گردی اور غلط کاموں کی وجہ سے پاکستان کی بدنامی کا باعث بنے ہوئے ہیں۔
٭…٭…٭…٭
راجن پور میں پل ٹینڈر کے بغیر مکمل‘ تعمیر کے بعد 30 جنوری کو ٹینڈر جاری کیا گیا
کیا کہہ رہے ہو بھائی‘ عجب کہہ رہے ہو بھائی۔ ایسا کون سا جادو تھا جو یہاں چل گیا۔ سرکاری کاغذات میں جس پل کا ذکر خیر تک نہیں ملتا وہ خود بخود کیسے بن گیا۔ کہیں نہ کہیں تو کچھ ضرور ایسا ہوا ہو گا جس کی پردہ داری ہے۔ ورنہ جہاں آفس میں کوئی فائل‘ روپے کا پہیہ لگاتے بنا ایک انچ بھی نہیں سرکتی وہاں بنا ٹینڈر کے پل کیسے بن گیا۔ یہ توکسی غیبی مخلوق کی کارستانی معلوم ہوتی ہے۔ جس نے یہ انہونا کام کر دکھایا۔ یا شاید کسی کے ہاتھ الہ دین کا چراغ آگیا ہو گا۔
اب حکومتی عناصر کہیں لٹھ لے کر اسے مسمار نہ کرنے پہنچ جائیں کہ کس گستاخ کی شرارت ہے۔ حکومتی ادارے تو ایسے کام کرنے سے قبل ہی اپنا اپنا حصہ نوچنے پہنچ جاتے ہیں اور کمیشن پہ کمیشن طے ہونے کے بعد ہی ٹینڈر جاری ہوتے ہیں اور معاملات خوش اسلوبی سے طے ہونے کے بعد وہ مرحلہ آتا ہے جب کوئی منصوبہ کاغذوں سے نکل کر عملی دنیا میں قدم رکھتا ہے۔ اس وقت تک…؎
کتنے عالم گزر گئے ہوں گے
پھول پہ شاخ سے اترنے تک
اس منصوبے کو عملی جامہ پہنانے والے بھی نہایت بے دلی سے یہ کام جیسے تیسے اپنے مگروں لاہتے ہیں۔ ایسے سینکڑوں مکمل منصوبے ملک بھر میں اپنی بربادیوں کا نوحہ پڑھتے نظر آتے ہیں۔ کہیں عمارتوں کی شکل میں کہیں سڑکوں اور پلوں کی شکل میں کھنڈر بنے نظر آتے ہیں۔ اب عوام منتظر ہیں اس اسرار سے پردہ اٹھنے کے یہ پل کسطرح خود بخود وجود میں آیا…
ڈر ہے کہیں اس کے درپردہ بھی کوئی نئی کہانی سننے کو نہ ملے کیونکہ خدا ترسی میں کام کرنے کی روایت ہمارے ہاں پائی نہیں جاتی۔
٭…٭…٭…٭