بھارتی صدر پرناب مکھرجی کا بھارت میں ہندو جنونیت کے سابقہ واقعات پر اعتراف حقیقت اور انکی آج کی ذمہ داری
انہیں مودی سرکار کی ہندو جنونیت رکوانے کیلئے عملی کردار ادا کرنا چاہیے
بھارت کے صدر پرناب مکھرجی نے اعتراف کیا ہے کہ ایودھیا میں رام جنم بھومی کھولنا راجیو گاندھی کا غلط فیصلہ تھا اور بابری مسجد کو شہید کرنا ایسی غداری تھی جس پر تمام بھارتیوں کے سر شرم سے جھک جانے چاہئیں‘ مسجد شہید کرکے مسلمانوں کے جذبات کو ٹھیس پہنچائی گئی۔ یہ سنسنی خیز انکشافات انہوں نے اپنی نئی شائع ہونیوالی کتاب میں کئے ہیں اور بھارت کی سیاسی شخصیات پر کھل کر تنقید کی ہے۔ گزشتہ روز اس کتاب ’’دی ٹربولینٹ ڈائرز‘‘ کی تقریب رونمائی ہوئی جس میں 1980ء سے 1996ء تک کے دور کا احاطہ کیا گیا ہے۔ بھارتی صدر کے بقول بابری مسجد کی شہادت اس دور کے صدر نرسیمارائو کی سب سے بڑی ناکامی تھی‘ انہیں اس معاملہ میں سینئر رہنمائوں سے مشاورت کرنی چاہیے تھی۔ بابری مسجد کی شہادت پر دنیا بھر سے سخت ردعمل آیا اور ایک اسلامی ملک کے وزیر خارجہ نے کہا کہ اس طرح تو اسرائیل نے مقبوضہ بیت المقدس میں بھی مسجد شہید نہیں کی۔ انہوں نے اپنی کتاب میں بھارتی حکومت کو رگیدتے ہوئے مزید لکھا کہ جنگ عظیم دوم کی فتح کی تقریبات میں شرکت تحریک آزادی کی بے عزتی کے مترادف ہے۔ بھارتی صدر نے اپنی کتاب کی تقریب رونمائی میں خطاب کرتے ہوئے کہا کہ کچھ تلخ حقائق ایسے ہیں جو انکے ساتھ ہی دفن ہو جائینگے۔ انہوں نے اعتراف کیا کہ ایودھیا میں رام جنم بھومی مندر کو کھولنے کی تحریک کی وجہ سے ہی بابری مسجد کو شہید کیا گیا تھا۔
نام نہاد سیکولر بھارت کا اصل چہرہ تو درحقیقت جنونی ہندو ریاست والا ہے جس میں اسی ناطے سے مسلمانوں اور دوسری اقلیتوں کا عرصۂ حیات تنگ کیا جاتا ہے جبکہ ہندو انتہاء پسندوں کی نمائندہ جماعت بی جے پی نے وہاں ہندو جنونیت کو فروغ دینے میں نمایاں کردار ادا کیا ہے۔ اسی پارٹی کے پہلے دور حکومت میں 1992ء میں رام مندر کی تعمیر کی تحریک کے دوران مشتعل جنونی ہندوئوں نے ایک طے شدہ منصوبے کے تحت حکومتی سرپرستی میں ہی بابری مسجد پر حملہ کرکے اسے شہید کیا تھا۔ حالانکہ اس تحریک کے دوران ہندو تنظیموں نے بھارتی سپریم کورٹ کے روبرو یقین دہانی بھی کرائی تھی کہ بابری مسجد کو کوئی نقصان نہیں پہنچنے دیا جائیگا۔ موجودہ بھارتی وزیراعظم نریندر مودی خود بھی پاکستان اور مسلم دشمنی میں پیش پیش رہے ہیں جنہوں نے گزشتہ سال ڈھاکہ میں میڈلز کی تقسیم کی ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے مکتی باہنی کی پاکستان توڑو تحریک میں خود حصہ لینے کا فخریہ اعتراف کیا تو یقیناً ایودھیا میں رام مندر کی تعمیر کی تحریک اور اس دوران بابری مسجد کو شہید کرنے کے واقعہ میں بھی ان کا عملی کردار موجود ہوگا جو بھارتی ریاست بہار کے وزیراعلیٰ کی حیثیت سے مسلم کش فسادات کی سرپرستی بھی کرچکے ہیں۔ آج بھارت میں یہی ہندو انتہاء پسند بی جے پی برسراقتدار ہے تو اسکے دور میں بھارت کو عملاً ہندو ریاست میں تبدیل کرنے کے حکومتی سطح پر اقدامات کئے جارہے ہیں اور سرکاری سرپرستی میں جنونی ہندوئوں کی تنظیموں شیوسینا اور آر ایس ایس کو بھی پاکستان اور بھارتی مسلمان اقلیتوں کیخلاف اپنی پرتشدد سرگرمیوں کو بڑھاوا دینے کا کھلم کھلا موقع مل رہا ہے جبکہ بی جے پی حکومت نے اپنے ایجنڈے کے تحت اقتدار میں آتے ہی بھارت کی مسلمان اور عیسائی اقلیتوں کو جبراً ہندو بنانے کا سلسلہ پوری دیدہ دلیری کے ساتھ شروع کیا اور پھر بھارت کی مسلمان اقلیتوں کے علاوہ پاکستان سے جانیوالے مختلف طبقات کے نمائندہ مسلمانوں کو بھی ہراساں کرنے اور تضحیک کا نشانہ بنانے کا سلسلہ شروع ہو گیا جو ہنوز جاری ہے۔ اسکے علاوہ بی جے پی کے موجودہ دور میں ہی گائے ذبح کرنے‘ اس کا گوشت رکھنے اور کھانے کے محض شبہ میں مسلمانوں کو بے دردی سے قتل کرنے کے واقعات بھی اس نام نہاد سیکولر بھارت میں رونما ہوتے رہتے ہیں جس کی بنیاد پر آج پوری دنیا میں بھارت کا ہندو جنونی چہرہ بے نقاب ہو چکا ہے اور آج اسی بنیاد پر بھارت عالمی دبائو میں ہے جسے ٹالنے کیلئے وقتی طور پر مودی سرکار نے پاکستان کیساتھ تعلقات بہتر بنانے کی کوشش کی مگر پٹھانکوٹ حملہ کے بعد ہندو جنونیت کا پرنالہ پھر اپنی جگہ پر آگیا چنانچہ آج پھر پاکستان بھارت کشیدگی انتہاء کو پہنچی نظر آتی ہے۔
یہ طرفہ تماشا ہے کہ بی جے پی کے پہلے دور میں بابری مسجد شہید کی گئی تو اسکے موجودہ دور میں گزشتہ ماہ خود بھارتی وزیراعظم نریندر مودی نے ایودھیا میں رام مندر تعمیر کرنے کا اعلان کیا اور اس مقصد کیلئے بھارتی ریاست راجستھان سے قیمتی پتھر اور دوسرا تعمیراتی سامان بھی منگوالیا گیا ہے۔ مودی سرکار کی سرپرستی میں ہندو جنونیت پر مبنی ایسے اقدمات کے باعث ہی آج سیکولر بھارت کی دنیا بھر میں بھد اڑ رہی ہے اور بھارت کے اندر سے بھی مختلف شعبوں کی نمائندہ شخصیات بشمول فنکاروں‘ دانشوروں‘ کھلاڑیوں اور لبرل سیاست دانوں کی جانب سے مسلسل احتجاج کیا جا رہا ہے۔ بھارتی صدر پرناب مکھرجی نے یقیناً اسی تناظر میں اپنی کتاب کے ذریعہ اور اس کتاب کی تقریب رونمائی میں خطاب کرتے ہوئے ہندو جنونیت کے حوالے سے بھارتی حکمرانوں اور سیاست دانوں کے غلط اقدامات او رفیصلوں کی تنقیدی نکتۂ نگاہ سے نشاندہی کی ہے جو سیکولر بھارت کا ہندو جنونی چہرہ دنیا کے سامنے بے نقاب کرنے کی ہی ایک کوشش ہے جبکہ بھارت کے اندر سے ہندو جنونیت پر مضطرب مختلف طبقات کی جانب سے پہلے ہی احتجاج کا سلسلہ جاری ہے۔ اس حوالے سے اگر بھارتی جمہوریہ کے صدر کی جانب سے آواز اٹھائی جاتی ہے تو وہ زیادہ مؤثر ثابت ہوگی۔ انہوں نے بابری مسجد کی شہادت کے سانحہ کے حوالے سے اس وقت کے صدر نرسیمارائو کو تنقید کا نشانہ بنایا ہے تو حکومتی سرپرستی میں جاری آج کی ہندو جنونیت کا بھارتی صدر کی حیثیت سے محض تماشا دیکھتے رہنے کی بنیاد پر کل کو بھارتی تاریخ میں وہ بھی ایسی ہی تنقید کی زد میں ہونگے اس لئے انہوں نے ہندو جنونیت والی جن غلطیوں کی نشاندہی سابقہ بھارتی دور حکومت کے حوالے سے کی ہے انہیں آج بطور صدر ان غلطیوں کا کم از کم اعادہ تو نہیں ہونے دینا چاہیے اور بجائے اسکے کہ ہندو جنونیت کے حوالے سے انکے مشاہدے میں آنیوالے تلخ حقائق انکے ساتھ ہی دفن ہوں‘ جس کا وہ اشارہ بھی دے رہے ہیں‘ انہیں یہ سارے حقائق بے نقاب کرکے بھارتی سیکولر چہرے پر ہندو جنونیت کے لگے داغ دھونے کی کوشش کرنی چاہیے اور موجودہ بی جے پی سرکار کے ہندوازم کے فروغ پر مبنی اقدامات سے انہیں روکنے کے بھی اقدامات اٹھانے چاہئیںمگر انکی کتاب میں کئے گئے اعترافات کے باوصف آج وہ بھی اپنے پیشرو نرسیمارائو کی طرح بطور صدر ہندو جنونیت کا بس تماشا دیکھ رہے ہیں اور مودی سرکار کے ہاتھ روکنے یا اسے سمجھانے کے بھی آج تک روادار نہیں ہوئے حالانکہ انہیں رام مندر کی تعمیر سے متعلق نریندر مودی کے فیصلے پر عملدرآمد بھی رکوانے کی کوشش کرنی چاہیے تھی‘ بھارتی مسلمانوں اور عیسائیوں کو جبراً ہندو بنانے کی بھارتی حکومتی پالیسی کی بھی مذمت کرنی چاہیے تھی اور گائے کا گوشت رکھنے اور کھانے کے شبہ میں ہندو جنونی تنظیموں کے مسلمانوں کو ذبح کرنے کے واقعات کا بھی سخت نوٹس لینا چاہیے تھا جبکہ ہندو جنونیت کیخلاف بھارت کے مختلف شعبہ ہائے زندگی کے نمائندگان کی جانب سے انہیں جو احتجاجی مراسلے بھجوائے گئے‘ ان پر بھی انہیں خاموشی اختیار کئے نہیں بیٹھے رہنا چاہیے تھا۔ اگر ماضی کے تناظر میں ہندو جنونیت کے واقعات پر وہ اپنے دل پر بوجھ پڑتا محسوس کررہے ہیں اور نرسیمارائو اور راجیوگاندھی کی اس حوالے سے غلطیوں کا تذکرہ کرنا بھی ضروری سمجھ رہے ہیں تو آج کی ہندو جنونیت کو رکوانے کیلئے بھی انہیں اپنے ضمیر کی روشنی میں عملی کردار ادا کرنا چاہیے۔ کسی تاریخ کی یاد دہائی کرانا تو بہت آسان ہوتا ہے مگر تاریخ بنانا اصل کارنامہ ہے اسلئے آج انہیں ہندو جنونیت سے سیکولر بھارت کو آزاد کرانے کا تاریخی کارنامہ سرانجام دینا چاہیے اور نرسیمارائو کی طرح مجبورِ محض بن کر نہیں بیٹھے رہنا چاہیے۔ انکے پاس خود کو بھارتی تاریخ میں یادگار بنانے کا آج ہی موقع ہے۔