خورشید شاہ اور آستین میں چھپے سانپ
ڈائریکٹر جنرل رینجرز سندھ میجر جنرل بلال اکبر کی قیادت میں کراچی آپریشن کے نتیجے میں ایم کیو ایم‘ پیپلز پارٹی‘ سنی تحریک‘ کالعدم چار تنظیموں مع ٹی ٹی پی اور کئی مافیاز اور ”سرکاری سرپرستوں“ ”سندھ دی باد“ کے نو رتنوں سمیت 45 سرکاری بڑے چھوٹوں اور قیادتوں کو ملزمان ”را“ ایجنٹوں ٹارگٹ کلنگ میں ہزاروں لوگوں کی ہلاکتوں‘ اغوا برائے تاوان و بھتہ‘ بعض دشمن ایجنسیوں کیلئے کام کرنیوالے بے نقاب‘ تحقیقاتی اداروں کے ثبوتوں کیساتھ ملزمان ثابت کردئیے گئے اور جنرل بلال اکبر کے ”ہاتھ“ (قانونی) بڑی سیاسی قیادتوں تک جاتے دیکھ کر بڑی سیاسی جماعتوں نے رینجرز آپریشن‘ تفتیش‘ عدالتی معاونت‘ مقدمات کے اندراج‘ اختیارات کے محدود کرنے‘ قانونی نوٹیفکیشن میں رکاوٹیں‘ نئے قواعد و اسمبلی قوانین کی تشکیل برائے رینجرز ”دائرہ کار اور اس طرح کے دیگر پروپیگنڈہ ہتھکنڈے استعمال کرکے آپریشن ضرب عضب کو کراچی میں ”اپنی مرضی“ (سندھ سرکار) سے ڈھالنے کے جتن کئے اور ملکی سلامتی‘ امن و امان‘ دشمن خفیہ اداروں کے کارندے اور سرپرست کو جیل تک معاملات پس پشت ڈالنے کے ”سرکاری کرتب کئے“! یہ سب اربوں روپے اور اپنی جانیں بچانے کےلئے کئے جا رہے ہیں تاکہ سندھ کے بڑے سیاسی گروپوں کے ”اصل کالے کرتوت“ نہ نظر آئیں نہ ”سیاسی طاقتور بڑے“ جیلوں کے پیچھے یا تفتیشی اداروں کی ”تحقیقاتی تحویل“ میں آئیں!
اپوزیشن لیڈر سید خورشید شاہ نے زرداری وفاداری میں کئی بار پاپڑ بیلے ہیں انکے لیڈر تو جرنیلوں کی اینٹ سے اینٹ بجاتے خود اپنا سر بچاتے فرار ہو گئے لیکن ساری ”مصیبت“ جھیلنے کیلئے اپنی جونیئر پارٹی قیادت کو ”کڑاکے“ نکلوانے کےلئے قربانی کا بکرا بنا دیا ہے!! ابھی تک سید خورشید شاہ نے بڑی فنکاری سے نواز شریف حکومت کو اپنی مرضی سے ”آدھا تیتر‘ آدھا بٹیر“ کی طرز پر نبھایا ہے لیکن اب سید خورشید شاہ وزیراعظم میاں محمد نواز شریف کو اپنی آستینوں میں چھپے سانپ (اشارہ وزیر داخلہ نثار علی خان) اور دیگر کی طرف ہے‘ بتا رہے ہیں!! نثار علی خان نے بطور وزیر داخلہ کئی بڑے اور سخت گیر فیصلے کئے ہیں اور کسی سیاسی سمجھوتے سے انکار کیا ہے لیکن پیپلز پارٹی اور دیگر قیادتیں سندھ میں رینجرز آپریشن کی قانونی کارروائی کو نواز شریف کو قومی اسمبلی میں ”بلیک میل“ کرکے اپنی بعض مفادات بھی حاصل کر رہے ہیں۔ ”آستین کے سانپ“ (نثار علی خان) قومی غیرت‘ حمیت‘ دبنگ گفتگو‘ سخت گیر پالیسی نفاذ‘ وزیراعظم سے قومی سلامتی پر سخت موقف کےلئے مشہور ہیں۔ ”آستین کے سانپ“ اگر ہیں بھی تو وہ میاں صاحب کا ”درد سر“ ہے البتہ ایسی مضحکہ خیز اور عامیانہ سوچ چودھری نثار علی خاں کے بارے میں قابل مذمت ہے جو صاف کردار‘ میرٹ پر فیصلوں‘ سخت گیری اور سرکاری پارٹی کے بڑے اراکین کے بارے میں ”تیر کی طرح سیدھے“ مشہور ہیں۔ بطور وزیر داخلہ نثار علی خان کے 100 میں سے 70 نمبر تو میرٹ پر بنتے ہیں البتہ وہ بہرحال انسان ہے اور غلطی انسانوں سے ہی ہوتی ہے کہیں کمزوری‘ نااہلی کے مظاہر بھی بڑی دہشت گردی کے واقعات سمیت نظر آتے ہیں مثلاً اسلام آباد کچہری کے اندر دو سال قبل دہشت گردوں کا حملہ لال مسجد کے مولانا عبدالعزیز اور ”داعش خلافت گروپ“ کے خلاف نرم رویہ وغیرہ لیکن مجموعی طور پر خصوصاً کراچی آپریشن اور خفیہ اداروں کے مابین وسیع تعاون‘ نیکٹا کے ادارے میں ماہرین کی ٹیمیں بنانا اور کئی طرح کے داخلہ امور کے فیصلے شامل ہیں یہ نثار علی خان کے کریڈٹ ہیں۔ سید خورشید شاہ کو پیپلز پارٹی کے 15 بڑے ”آستین کے سانپ“ خود اپنے اندر کیوں نظر نہیں آتے؟؟ الگ سے بڑے چھوٹے بھتہ‘ ٹارگٹ کلنگ‘ اغوا‘ اربوں کی کرپشن‘ چیئرمین‘ ڈی جی اور سیکرٹری‘ مشیر بعض وزیر ”آستین کے سانپ“ نہیں ہیں جنہوں نے بھٹو اور بے نظیر کی پیپلز پارٹی کو ملک دشمنی‘ لوٹ مار‘ میرٹ کے جنازے‘ قرضے ہڑپ کرنے‘ اربوں ڈالر بیرون ملک بھجوانے‘ جاگیرداری وسیع کرنے‘ فیکرٹریوں کی قرضہ خوری‘ آئل گیس‘ ڈائی پورٹ‘ کے ڈی اے‘ کے ای ایس سی اور 25 قومی اداروں کو کنگال کرنے کے کالے کرتوت کرکے قومی جماعت کو تاریخی سیاسی شکستوں کے گٹر میں پہنچا دیا کہاں ”تخت کے وارث“ کہاں ایجنسیاں‘ نیب‘ ایف آئی اے اور عوامی چھترول ووٹوں سے عوام کو ”آستین کے سانپ“ اسلام آباد میں تو زیادہ نہیں نظر آتے البتہ پیپلز پارٹی کے سانپ اور کالے ناگ 5 سال قومی حکومت اور دس سال سندھ حکومت پر مسلط ہے جنہوں نے پاکستان کا بیڑا غرق کر دیا۔ نثار علی خان سے یقیناً چند تساہل‘ غفلت 30 ماہ میں ہوئی ہو گی البتہ آستین کے سانپ تو زرداری بلاول کے اردگرد 10 سال سے ہیں۔ اپنی صفوں میں ڈھونڈیں اور انکو اپنی صفوں سے نکالیں تاکہ ڈی جی رینجرز بلال اکبر‘ آئی ایس آئی‘ نیب‘ ایف آئی اے کو ”GLOHN UP“ آپریشن سکون سے کرکے ملک کو امن ترقی پر ڈالنے میں رکاوٹ نہ ہو!