صفائی نصف ایمان اور قومی خزانے کی صفائی مکمل ایمان!!
عزیر بلوچ کے انکشافات سے اندازہ لگا لیں کہ پاکستان میں حکمران اور سیاسی پارٹیاں کیا گھنا¶نے فعل ادا کر رہی ہیں۔ عزیر بلوچ کی گرفتاری سے پیپلز پارٹی کے کالے کرتوت سامنے آ گئے ہیں۔ آصف زرداری ویسے تو ہٹے کٹے پھرتے ہیں۔ اپنے پانچ سالہ دور صدارت اور جیل سے نکل کر دوبئی اقامت تک ان کا کان تک میں درد نہیں ہوا بلکہ بطور صدر آصف زرداری ہشاش بشاش اور اپنی عمر سے کم از کم میں پندرہ سال کم دکھائی دیتے تھے حالانکہ ہمارے ہاں چالیس سال کے بعد عورتوں اور مردوں کی اکثریت ڈھلک جاتی ہے بلکہ عوامی سطح کے لوگ تو اپنی عمر سے پندرہ سال بڑے لگنے لگتے ہیں لیکن ظاہر ہے کہ جو لوگ محلات میں رہتے ہیں‘ ذاتی طیاروں‘ لیموزین‘ بی ایم ڈبلیو‘ مرسڈیز میں سکواڈ کے ساتھ گھومتے ہوں۔ پاکستان کے چھ شہروں میں ذاتی محل اور ایکڑوں مربعوں میں زمینیں ہوں اور دنیا کے چھ ممالک میں چھ رہائش گاہیں ہوں۔ پاکستان اور دنیا کے درجن بھر بنکوں میں کھربوں کے اثاثے ہوں۔ وہ لوگ تو بڑھاپے میں بھی جوان رہتے ہیں لیکن پاکستان کی آبادی اگر 20 کروڑ ہے تو اس میں پندرہ کروڑ عوام انتہائی تکلیف دہ زندگی گزار رہی ہے۔ یہ لوگ ہر وقت ٹینشن میں مبتلا رہتے ہیں۔ ان افراد کو مہذب زبان میں غریب اور لوئر مڈل کلاس یا مڈل کلاس کہا جاتا ہے۔ اسکے بعد تقریباً ساڑھے چار کروڑ افراد اپر مڈل کلاس ہیں اور خوشحال زندگی ان کا مقدر ہے۔ پاکستان میں چالیس سے پچاس لوگ انتہائی امیر کبیر ہیں۔ ان میں حکمران‘ سیاستدان‘ بزنس مین‘ جاگیردار‘ وڈیرے‘ زمیندار ٹائپ کے لوگ آتے ہیں۔ ان میں حکمرانوں اور سیاستدانوں کے حالات زندگی یکلخت بدل جاتے ہیں جیسا کہ خورشید شاہ کے حوالے سے یہ خبریں عام ہیں کہ وہ دو دہائی پہلے محض ایک کلرک تھے۔ جہانگیر ترین کے متعلق بھی ایسی ہی معلومات ہیں۔ خود میاں برادران کے والد اپنے ہاتھوں سے کام کر کے خاندان کی کفالت کرتے تھے۔ آج انکی اولاد کے صرف تیس سالوں میں اتنے اثاثے ہیں کہ وہ ایک صوبہ خرید سکتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ اتنی مدت میں قارون کا خزانہ تو نازل نہیں ہو سکتا۔ ہمارے ہاں تو ایک معمولی کلرک اتنے عرصے میں بمشکل سترہویں یا اٹھارہویں گریڈ تک پہنچتا ہے بلکہ اکثر سترہویں گریڈ تک پہنچ کر ریٹائر ہو جاتا ہے۔ برائے نام پنشن میں زندگی کے باقی دس پندرہ سال بیماری اور تنگدستی میں کاٹ کر مر جاتا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ پاکستان میں ہر شخص کو دولت کمانے کا جنون ہو گیا ہے۔ جائز ناجائز طریقے سے دولت کمانا مشن بن چکا ہے۔ 20 کروڑ میں سے شاید ایک کروڑ (اور ممکن ہے یہ میری خوش فہمی ہو) ایسے ہوں جو پوری زندگی رزق حلال کماتے ہوں اور صبر شکر سے جیتے ہوں وگرنہ یہاں ہر آدمی موقع سے فائدہ اٹھاتا ہے۔ رشوت اور بالائی آمدنی کو جائز اور اپنا حق سمجھتا ہے۔ رشوت لینے والا یہ سوچتا ہے کہ جو رشوت دے رہا ہے‘ گناہگار وہ ہے۔ میں تو اپنے بچوں کیلئے کما رہا ہوں۔ راشی کو سزا ملے گی کیونکہ وہ رشوت دے رہا ہے‘ میں تو اس کا کام کر کے پیسہ کما رہا ہوں۔ دوسری طرف رشوت دینے والا کہتا ہے کہ میرا کام سیدھے طریقے سے نہیں ہو رہا یا مطلوبہ مقاصد حاصل کرنے کیلئے وہ اپنے کام کا معاوضہ دے رہا ہے۔ گناہ تو رشوت لینے والے کو ہو گا کیونکہ ناجائز طریقے سے وہ پیسوں کا مطالبہ کر رہا ہے۔ رشوت کا پیسہ وہ کھا رہا ہے لہٰذا وہ جہنمی ہے۔ کیا مزیدار بات ہے کہ دونوں غلط اور ناجائز کام کیلئے اپنی تاویلوں سے پیسہ لے اور دے کر بری الذمہ ہو جاتے ہیں۔ پاکستان میں آج سب سے بکا¶ چیز ”ایمان“ ہے۔ حکمرانوں‘ سیاستدانوں سمیت عوام نے ”ایمان“ کو گروی رکھ دیا ہے۔ عزیر بلوچ کیس اسکی ایک شرمناک مثال ہے۔ اگر عزیر بلوچ ہر ماہ دس کروڑ بھتہ وصول کرتا تھا تو سالانہ آمدن سوا ارب روپے ہوئی۔ 400 قتل کا اعتراف تو چنگیز خان کی روح کو بلبلانے اور ہٹلر کی روح کو چیلنج کرنے والی بات ہے۔ پیپلز پارٹی زیرعتاب ہے اسلئے یہ معاملہ سامنے آ گیا۔ اسکے بعد ایم کیو ایم کے ڈاکٹر عمران فاروق کیس کے اصل شواہد اور معاملات سے پردہ اٹھے گا تو معلوم ہو گا کہ کہانی کا اصل وِلن یعنی ”ہیرو“ کون ہے۔ مولانا فضل الرحمان یا دیگر مذہبی جماعتوں کے دبیز پردے بھی کھینچے گئے تو تکلیف دہ حقائق منہ پھاڑے کھڑے ہونگے۔ تحریک انصاف ابھی تک نئی نویلی ہے لیکن تحریک انصاف کی اخلاقیات اور مجرمانہ حملوں کا یہ حال ہے کہ عمران خان پر سوشل میڈیا یا پرنٹ میڈیا میں کوئی تنقید کرے یا عمران خان کا کوئی کارٹون بنائے تو تحریک انصاف نہ صرف مذکورہ شخص کی کردارکشی شروع کر دیتی ہے بلکہ تحریک انصاف کا نیٹ ورک باقاعدہ دھمکیاں دینا شروع کر دیتا ہے۔ یہی نہیں تحریک انصاف کا میڈیا نیٹ ورک تنقید کرنےوالوں کو خوفناک نتائج سے ڈراتا ہے ۔ تحریک انصاف کے پاس نہ ابھی مکمل طاقت ہے نہ اتنا پیسہ ہے نہ اقتدار ہے مگر ابھی سے ان کے اندر طاقت اور اقتدار کا نشہ بلکہ فتور ہے اور یہ طاقت یا شہرت کا مجرمانہ ارتکاب کر رہے ہیں۔ کیا عمران خان کو نہیں معلوم کہ ان کا میڈیا نیٹ ورک کس قسم کی شرمناک دھمکیاں اور گندی زبان استعمال کرتا ہے۔ عمران خان نے ساری زندگی دوسروں پر تنقید کی ہے لیکن اپنے اوپر تنقید کبھی برداشت نہیں کی حالانکہ انکی سیاسی اور ذاتی زندگی میں بے شمار خامیاں‘ نقائص‘ عیوب اور انتقام ہیں۔ ان گنت معاملات کو اچھالا جائے یا سامنے لایا جائے تو انکی سیاسی موت واقع ہو سکتی ہے اور وہ دس سیٹیں بھی نہیں جیت سکتے لیکن میڈیا انکے کئی ناپسندیدہ ایشوز کو چھپا لیتا ہے.... اگر کوئی میڈیا پرسن کسی حقیقت پر سوال اٹھا لے تو وہ خود بدتہذیبی پر اتر آتے ہیں۔ کیا ایسے لوگ قومی لیڈر بن سکتے ہیں جو اپنی کوتاہیوں اور ناکامیوں یا غلطیوں پر آگ بگولہ ہو جاتے ہیں....؟ اسکے بعد حکمران جماعت کی باری آتی ہے جس کا تیس سالوں میں کبھی آج تک احتساب نہیں ہوا۔ ن لیگ کی کرپشن کے معاملات کو ہمیشہ پیسے اور عہدے دے کر دبایا جاتا رہا ہے۔ پیپلز پارٹی میں تو شاید آٹھ دس ”عزیر بلوچ“ ہونگے مگر ن لیگ میں تو عزیر بلوچ کی پلٹن ہے۔ یہ لوگ بھٹو کیس کو بھول جاتے ہیں کہ جب پکڑ ہوتی ہے تو پھر ایک خون بھی معاف نہیں ہوتا اور پھانسی مقدر بن جاتی ہے۔ یہ لوگ جو پہلے سیاستدان بنتے ہیں پھر حکمران بننے کی تگ و دو کرتے ہیں یا حکمران بن جاتے ہیں تو پھر اقتدار اور اختیار کو اپنی ذات اور خاندان تک مرتکز کر کے لوٹ مار کیوں شروع کر دیتے ہیں۔ یہ جہاز‘ دھن دولت‘ زر زمین اور زن قبر میں ساتھ لے جا سکیں گے۔ یہ جانتے ہوئے بھی‘ وہ صرف یہ جانتے ہیں کہ صفائی نصف ایمان ہے اور اسی لئے وہ دن رات قومی خزانے کی صفائی کر رہے ہیں لیکن قومی خزانہ صاف کرنے کے بعد خدا کے سامنے کیا ”صفائی“ پیش کریں گے....؟