گر تو برا نہ مانے
مکرمی! اپنے ملک میں آجکل نیشنل ایکشن پلان، کرکٹ اور مختلف بنیادی ضروریات کے نہ ہونے پر احتجاج کا چرچہ ہورہا ہے۔ چلئے فی الحال کرکٹ کی بات کرتے ہیں۔ کچھ دیر پہلے میچ فکسنگ کے سزا یافتہ فاسٹ باﺅلر کی واپسی پر بہت بحث مباحثہ چلتا رہا مگر وہ میرٹ اور عوام کی اکثریت کے بل بوتے پر T-20 اور ون ڈے کے فارمیٹ میں سلیکٹ کرلئے گئے۔ ہم T-20 کی سیریز نیوزی لینڈ سے ہار گئے۔ محمد عامر کا پہلا بڑا امتحان تھا۔ بہرحال اس نے T-20 میں اگر اچھی نہیں تو بری کارکردگی بھی نہیں کی باوجود اس پر پریشر کے۔ اب ٹیم باہر کھیلے یا اپنے ملک میں جو آفیشلز ساتھ جاتے ہیں ہیڈ کوچ، کوچ باﺅلنگ، کوچ فیلڈنگ، کوچ سپن باﺅلنگ، کوچ منیجر، فزیو وغیرہ ان کا وہاں کیا خاص کام ہے اور یہ بات عام سمجھ سے تو باہر ہے کہ اگر کسی لڑکے میں کرکٹ کا ٹیلنٹ ہے جو اکیڈمی میں آکر سیکھتا ہے وہاں تو کوچز کی سمجھ آتی ہے مگر جو پلیئر بن کر کسی بھی فارمیٹ کے لئے سلیکٹ ہوجاتا ہے، اس کو پھر کوچ کی کیا ضرورت ہے، اس کو تو کپتان نے گائیڈ کرنا ہوتا ہے۔ یہ تو وہ پہلے ہی اکیڈمی سے سیکھ کر ٹیم میں آتا ہے پھر ٹیم کیلئے کوچز وغیرہ کی بھرمار کیوں؟ (افتخار احمد قریشی، لاہور)