تاج و تخت اور پٹواری کا بستہ
پچھلے وقتوں میں بادشاہ یا حکمران دور سے ہی پہچانا جاتا تھا۔ تاج اور شاہی مزید براں نقیب کی آواز ’’خبردار ہوشیار باملاحظہ نگاہ روبرو ظل سبحانی بادشاہ سلامت تشریف لاتے ہیں،، بادشاہ اپنے سرپر طلائی سہرا موتیوں جڑا قیمتی تاج اور خلعت شاہی معہ چغہ پہنے نمودار ہوتا تو دو رویہ کھڑی حاضرین فرشی سلام اور کورنش سے استقبال کرتے اور منہ سے بآواز بلند خیرمقدمی کلمات ادا کرتے جاتے بادشاہ کے اندر موجود احساس برتری کو تسکین ملتی اور رعایا میں اپنے بادشاہ کیلئے محبت اور عزت و احترام کے جذبات پیدا ہوتے۔ آج بھی جہاں جہاں بادشاہت موجود ہے۔ یہ منظر دیکھنے میں آ جاتا ہے مگر ذرا کمی کے ساتھ روایتی نقابت کی جگہ موسیقی اور بگل کی آواز سے کام لیا جاتا ہے۔ برطانیہ نے شاہی روایات کو عین جمہوری یلغار کے درمیان قائم رکھا ہوا ہے۔ وہاں کی شاہی تقریبات کی جھلک دیکھ کر یوں محسوس ہوتا ہے جیسے کوئی سہانے خواب کا منظر ہے یا کسی ملٹی ملین ڈالر فلم کی عکس بندی کیلئے روایتی سیٹ لگایا گیا اور شاہی خاندان کے افراد اپنے مخصوص لباسوں میں ملکہ برطانیہ کے گرد۔ ملکہ کوہ نور ہیرے والا تاج پہنے پورے شاہی طمطراق کیساتھ۔ ایک جھلک دیکھنے کیلئے ہزاروں افراد محبت اور عقیدت کے جذبات سے شرابوراور بے چین ، بچے بوڑھے نوجوان، خواتین اور مرد بھی فرط مسرت سے پر زور نعرے لگاتے۔ بادشاہ اور رعایا کی حقیقی شکل آمنے سامنے!
مگر اسکے مقابلے میں بھارتی حکمران بھارت ایسی تقریبات میں بھیگی بلیوں کی طرح سہمے سہمے دکھائی دیتے ہیں۔ حال ہی میں انڈیا کے قومی دن کی تقریبات پر فوجی پریڈ ہوئی جس کی قیادت فرنچ فوجی دستے نے کی۔ فرانس کے صدر مہمان خصوصی تھے۔ پریڈ دیکھنے کیلئے عوامی ٹھٹھہ بھی موجود تھا۔ مگر وزیراعظم مودی کا چہرہ گلابی پگڑی کے باوجود شان حکمرانی سے خالی تھا۔ فرانسیسی صدر بھی حکمران سے زیادہ کاروباری بروکر لگ رہے تھے۔ کرہ ارض پر حکمرانی کے دعویدار سپر پاور کے سربراہ کو تو ایسا ہونا چاہئے کہ رعایا دیکھتے ہی جھکنے اور احترامی انداز اختیار کرنے پر مجبور ہو جائے۔ مگر حضرت اوبامہ تو ایسے کھنلڈرے انداز میں رونما ہوتے ہیں کہ سبحان اللہ جیسے جمناسٹک کا کھلاڑی لکڑی کے گھوڑے پر کودتے ہوئے اچانک دم لینے کیلئے کھڑا ہو جائے پھر جو بولتے ہیں تو ماشاء اللہ جیسے چارہ کاٹنے کی مشین چل پڑی انگریزی زبان کے کچھ الفاظ منہ چھپاتے پھرتے ہیں۔ اس پر مستزاد یہ کہ کبھی کبھار اپنی بیوی اور دونوں بیٹیوں کے ہمراہ دھمال ڈالنے سے بھی نہیں چوکتے ان کے پیش رو صدر بش تو ہیلی کاپٹر سے اترتے ہوئے باقاعدہ ایک دو اضافی جمپ لگاتے اور سلیوٹ کرتے فوجی کو ہیلو ہائے کرنے حال چال بھی پوچھ لیتے۔ روسی صدر بھی اپنے ظاہری روپ سلوپ میں حکمران قسم کی چیز دکھائی نہیں دیتے۔ جھولتے جھالتے لہراتے آتے ہیں جیسے ریسلنگ مقابلے میں شرکت کیلئے آرہے ہوں اتنے سنجیدہ کہ جیسے مخالف سے خائف ہوں۔ سعودی عرب اور مشرق وسطیٰ کے عرب حکمران بادشاہ ہیں مگر اپنے لباس اور چال ڈھال سے ہر گز نمایاں نہیں لگتے شاہی خاندان تو روایتی عرب قافلے کا سا عمومی منظر پیش کرتا ہے۔ خیر سے ہمارے حکمران بھی جمہوریت کی وجہ سے بے وقعت تو دکھائی دیتے ہیں۔ مگر انہوں نے اپنی تمکنت کو سہارا دینے کیلئے متبادل انتظامات کر رکھے ہیں۔ وزیراعظم نوازشریف اپنے تجربہ حکمرانی کے سبب بھاری بھر کم شخصیت بن چکے ہیں۔ شاہی دبدبہ یا حکمرانی کے رعب سے زیادہ ان کی توجہ عوامی قبولیت کی جانب ہوتی ہے اس لئے ایک سادہ مسکراہٹ سے اکثر کام چلاتے ہیں۔ کبھی کبھار چہرے پر فاتحانہ تفاخر بھی آ جاتا ہے مگر شاید اس دن جب جم خانہ کلب میں اپنے پسندیدہ بائولر کے خلاف سنچری ماری ہو۔
سوال یہ ہے کہ تاج کلاہ شاہی پر یہ زوال کیوں آیا۔ دنیا میں دو سو سے زائد ممالک میں تقریباً اتنے ہی حکمران ہیں مگر آن، بان شان سے محروم ایسے میں عیسائی پوپ کی شان و شوکت اپنا جواب آپ ہے دنیا کی سب سے چھوٹی ریاست مگر بادشاہ زور دار لاجواب، شاہی لباس، تاج اور چغہ جن سے تاریخی روایت کا رنگ چھلکتا ہے۔ جمہوریت حکمرانی کی علامتوں کو قصہ پارینہ تو بنا دیا ہے لیکن تیسری دنیا کے حکمرانوں نے اپنی اہمیت اور رعب اجاگر کرنے کے طریقے ایجاد کر لئے ہیں۔ سلیوٹ اور پروٹول، حکمرانوں کی دیکھا دیکھی پروٹوکول کی لت چھوٹے سرکاری ملازمین تک میں سرایت کر گئی ہے۔ مثلاً ہمارے پٹواری چودھری عالم کا پروٹو کول اگر امریکی صدر اوبامہ دیکھ لے تو حسد سے دماغی توازن کھو بیٹھے ۔ پٹوار خانہ کھلنے سے پہلے چار پانچ خدمت گار آئے ہیں۔ سب سے پہلے حقہ بردار رمضانی پھر خانسامہ اس کے بعد بستہ بردار چھوٹے منشی کلف لگے کڑکڑ کرتے لباس میں پٹواری عالم جیسے اپنی پراڈو سے قدم نیچے رکھتا ہے تو یہ اہلکار آئو بھگت خوشامد پر جت جاتے ہیں۔ پٹوار خانے میں ایک آدھ گھنٹہ قیام کے بعد چودھری عالم اپنے وسیع کاروبار کی نگہداشت کیلئے ذاتی پلازے میں واقع دفتر چلا جاتا ہے۔ رہا یہ سوال کہ جمہوریت نے حکمرانوں سے تاج اور لباس شاہی کیونکر چھینا تو اس کا جواب یہ ہے کہ خود حکمرانوں نے اپنی مٹی پلید کی۔ اسکی مثال یہ ہے کہ چند روز قبل ترکی نے شام میں بمباری کرنے والا روسی طیارہ مار گرایا۔ اس دوران عالمی سطح پر کشیدگی کا عارضی منظر بنا اور امریکہ روس کے درمیان گرما گرمی دیکھنے میں آئی۔ اس ضمن میں امریکی صدر اوبامہ نے ایک پریس کانفرنس کے دوران ایک صحافی کے سوال کا جواب دیا مذاقاً ایے کلمات کہے جو کسی بھی طور صدر مملکت کے شایان شان نہ تھے۔ غالباً وہ کہنا یہ چاہتے تھے کہ ہمارا ہاتھ روس سے زیادہ لمبا ہے مگر ہاتھ بجائے قابل اعتراض لفظ استعمال کیا جس پر قہقہ پڑا مگر ساتھ ہی اخلاق کا جنازہ بھی نکل گیا۔ اوبامہ کے سر پر تاج اور شاہی جبہ پہنا ہوتا تو شاید صورتحال یہ نہ ہوتی جمہوریت نے تاج و تخت اڑا دئیے اور شاید اخلاق کے پیمانے بھی۔