چوہدری نثار سچے مگر اکیلے
جنرل ضیاء الحق کے دنوں میں مارشل لاء پسند کہتے تھے کہ ’’دیکھو کوئی افراتفری نہیں ہے۔ اس سکون کے باعث ملک ترقی کررہا ہے‘‘۔ انکے جواب میں جمہوریت پسند کہتے تھے کہ ’’گٹر پر بوٹ رکھ دینے کا یہ مطلب نہیں کہ گندگی ختم ہوگئی ہے‘‘۔ سیاست اور جمہوریت ملکوں کی ڈرائیونگ کا بہترین فارمولہ ہیں لیکن اِن میں مفادات اور سازشیں شامل ہو جائیں تو سیاست اور جمہوریت بُوچھوڑنے لگتی ہیں۔ پھر اس پر بوٹ رکھا جائے یا چپل، گندگی موجود رہتی ہے اور دائو لگنے پر باہر بھی نکل آتی ہے۔ پاکستانی سیاست میں حکومتی منصوبوں کو ناکام بنانے کی روایت بہت مضبوط ہے۔ اس حمام میں سب ننگے ہیں، کوئی پردہ دار نہیں ہے۔ جہاں حکومتی منصوبوں کا مقصد محض اپنی پبلسٹی کرنا اور ووٹروں کو راغب کرنا ہوتا ہے وہیں مخالف سیاسی جماعتوں کا ان منصوبوں پر تنقید کرنے کا مقصد حکومت کو اڑنگے دینا اور ووٹروں کے سامنے شرمندہ کرنا ہوتا ہے۔ حکومت ہویا اپوزیشن، دونوں صرف اور صرف اپنے مفاد کے لئے منصوبے بناتی یا بگاڑتی ہیں، عوام ان کی پہلی ترجیح نہیں ہوتے۔ اسکے علاوہ غریب ملکوں میں شروع کئے جانیوالے بڑے منصوبوں میں بین الاقوامی مفاد بھی شامل ہوتا ہے۔ ان بین الاقوامی مفادات کی نگرانی متعلقہ غریب ملکوں کی حکومتیں کرتی ہیں۔ یہ حکومتیں شور مچا مچا کر اپنے عوام کو جتلاتی ہیں کہ ان منصوبوں سے ملک اور عوام کا بہت فائدہ ہے۔ حالانکہ دنیا کا کوئی چھوٹے سے چھوٹا کاروباری بھی صرف دوسروں کے فائدے کیلئے کوئی کام نہیں کرتا۔ البتہ اُسکے اپنے مفاد میں بنائے گئے منصوبے سے تھوڑا بہت فائدہ خود بخود مقامی لوگوںکو مل جاتا ہے۔ اسی طرح بڑے کاروباریوں کے فائدہ حاصل کرنے کے بعد جو تھوڑا بہت فائدہ اس متعلقہ ملک کیلئے خود بخود بچ رہتا ہے اُسے وہاں کی حکومتیں اپنی بہت بڑی کامیابی کہتی ہیں۔ بیچارے عوام انہی بڑے منصوبوں کے خیراتی فائدوں پر تالیاں بجاتے رہتے ہیں۔ ن لیگ کی موجودہ حکومت کے آخری دو سال شروع ہونیوالے ہیں۔ ن لیگ خاص سوچ کے تحت اِن دو برسوں میں اپنے بڑے اور چھوٹے منصوبوں کے ذریعے عوام کو زیادہ سے زیادہ متاثر کرنا چاہتی ہے۔ اسی طرح باقی سب سیاسی جماعتیں بھی آئندہ انتخابات میں کامیابی حاصل کرنے کی خواہش مند ہیں۔ لہٰذا پارٹ آف گیم کے تحت اُنکی دلی خواہش ہو گی کہ ن لیگ اپنے منصوبے مکمل نہ کر سکے اور ووٹروں کے سامنے شرمندہ ہو۔نجکاری جدید معیشت کا کامیاب پرزہ ہے لیکن جب اِسے غریب ملکوں میں فِٹ کیا جاتا ہے تو مفادات اور سازشیں اِسے زنگ آلود کر دیتی ہیں۔ پی آئی اے کی نجکاری کیخلاف اٹھنے والی آوازیں جہاں جدید معیشت کے اصولوں کیخلاف ہیں وہیں ہماری مفاداتی سیاست کی بدترین تصویریں بھی ہیں۔ اورنج لائن ٹرین منصوبہ جہاں جدید ملکوں کی نشانی ہے وہیں لاہور میں یہ منصوبہ خود غرضی کی علامت بھی ہے۔ دوسری طرف اورنج لائن ٹرین منصوبے کیخلاف لاٹھیاں پکڑے مخالف عوام کسی نا کسی سیاسی سرپرستی میں نظر آتے ہیں۔ حکومت اور اپوزیشن کے اس آنکھ مچولی والے کھیل میں پی آئی اے نجکاری اور اورنج لائن ٹرین منصوبوں کو ہماری مفاداتی سیاست میں مثال بناکر پرکھیں تو معاملہ کھلتا چلا جاتا ہے۔ ہمارے ہاں ٹریڈ یونین سیاسی جماعتوں کی پالتو یونین ہوتی ہیں۔ انکے عہدے داران اپنے ہم پیشہ ساتھیوں کے مفاد کی بجائے اپنی سرپرست سیاسی جماعتوں کا مفاد سر فہرست رکھتے ہیں۔ یہی سرپرست سیاسی جماعتیں پی آئی اے میں اپنی اپنی ٹریڈ یونینز کے ذریعے ن لیگ کے نجکاری منصوبے کو ناکام بنانا چاہتی ہیں جبکہ اس سے قبل پیپلز پارٹی خود اپنے دورِ حکومت میں پی آئی اے کی نجکاری کی بھرپور بات کرتی تھی۔اُس وقت ن لیگ اس نجکاری کی زبردست مخالف تھی۔ تحریک انصاف کے منشور میں بھی پی آئی اے جیسے ناکام اداروں کی نجکاری سرفہرست ہے۔ لیکن ن لیگ کو خراب کرنے کیلئے عمران خان بھی پی آئی اے کی نجکاری کے خلا ف اٹھ کھڑے ہوئے ہیں۔ یہی دونوں جماعتیںیعنی پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف ہی مستقبل کے عام انتخابات میں ن لیگ کی مرکزی مخالف جماعتیں ہوں گی۔ باقی سب چھوٹی موٹی مخالف سیاسی جماعتیں انہی دونوں کے بلاکوں میں شامل ہوں گی۔ دوسری طرف ن لیگ کی کارکردگی کو پرکھنے کیلئے کسی پی ایچ ڈی کی ضرورت نہیں ہے۔ ملک میں دہشتگردی میں کمی ضربِ عضب کے باعث ہوئی جوپاک فوج کا مشن ہے۔ اسی مشن کا دوسرا حصہ کراچی میں رینجرز کے اقدامات ہیں۔ اسی طرح وزارتِ خارجہ کی دیکھ بھال بھی بلاواسطہ پاک فوج ہی کر رہی ہے۔ باقی رہے ملک میں شروع ہونیوالے بڑے بڑے منصوبے جن کے بارے میں اوپر لکھا جا چکا ہے کہ ایسے منصوبے بین الاقوامی مفادات کے بغیر نہیں ہوتے۔ گویا ن لیگ جن کامیابیوں پر اکڑ رہی ہے وہ یاتو پاک فوج کی مرہونِ منت ہیں یا بین الاقوامی مفادات کے باعث ہیں۔ اسکے علاوہ ن لیگ کی جھولی میں حقیقی رفاہِ عامہ کا کوئی کام نہیں ہے۔ مختصر یہ کہ پاکستان کی سیاست اور سب سیاسی جماعتوں کے پاس چھوٹے بڑے مفادات، جھوٹ اور منافقت کے بعد بہت تھوڑا حصہ عوام کیلئے بچتا ہے البتہ ان سیاسی جماعتوںکے اندر جھوٹ اور مفادات کے خلاف کبھی کبھی کسی دیوانے کی للکار سنائی دے جاتی ہے۔جیسا کہ ن لیگ میں ایسی ہی ایک آواز چوہدری نثار کی ہے۔ انکے بارے میں پیپلز پارٹی کے خورشید شاہ نے صحیح کہا کہ’’ وہ ن لیگ کے اندر اپوزیشن لیڈر ہیں‘‘۔ بیشک اپوزیشن کا کام چیک رکھنا ہوتا ہے۔ اسی چیک رکھنے کی پاداش میں چوہدری نثار اپنی اور دوسری مخالف سیاسی جماعتوں کے نشانے پر رہتے ہیں۔ چوہدری نثار کیخلاف حالیہ مہم میں ایک تشویش ناک تیزی محسوس ہو رہی ہے۔ کراچی میں رینجرز کی پیش قدمیوں سے کچھ جماعتیں ڈری ہوئی ہیں۔ رینجرز وفاقی وزارتِ داخلہ کے زیرنگرانی ادارہ ہے اور اسکے وفاقی وزیر چوہدری نثار ہیں۔ پی آئی اے کی ہڑتال میں ہلاک ہونیوالوں کا الزام رینجرز پر لگایا گیا ہے۔ پاکستان میں کوئی نیا سکرپٹ لکھا جارہا ہے یا نہیں، اس سے قطع نظر چوہدری نثار کی آواز مفاداتی سیاست کو چیلنج کر رہی ہے۔ صحرا میں اگا اکیلا درخت پورے علاقے کو ہرا بھرا کرسکے یا نہ کرسکے مگر صحرا کی امید ضرور ہوتا ہے۔ ہوسکتا ہے چوہدری نثار سچے ہوں مگر اکیلے ہیں۔