پی آئی اے کی پراپرٹی بیرون ملک اور اسحاق ڈار
ایک تصویر میں پاکستان کی تقدیر کا احوال موجود ہے۔ گاڑی میں وزیراعظم نواز شریف اور آرمی چیف جنرل راحیل شریف فرنٹ سیٹ پر ساتھ بیٹھے ہیں مگر ڈرائیونگ جنرل راحیل شریف کر رہے ہیں۔ ذرا سوچئے یہ گاڑی نجانے کہاں جا رہی ہے۔ میں اکثر اپنا کالم نوائے وقت کے مطالعے سے بناتا ہوں۔ آج کے اخبار میں دردمند ڈائریکٹر جنرل ڈاکٹر سید طاہر رضا بخاری اور دلیر وزیر داخلہ چودھری نثار علی خان کے اقدامات مجھے اچھے لگے ہیں۔ میرے خیال میں پی آئی اے کے ملازمین ہڑتال کے علاوہ اس صورتحال پر بھی غور کریں کہ پی آئی اے کو اس حد تک پہنچانے میں ان کا اپنا ہاتھ بھی ہے بلکہ دونوں ہاتھ ہیں۔ سنا ہے اس سے وزیر ریلوے خواجہ سعد رفیق کے ہاں چوگنی ریل پیل ہو گئی ہے۔ ریلوے سٹیشن پر بڑا رش ہے۔ یہ ریلوے افسران کی سازش ہی نہ ہو۔ پی آئی اے کی نجکاری کے بعد ریلوے کی بھی نجکاری کی جائے۔ اسحاق ڈار کو خزانے کے علاوہ نجکاری کا بھی وزیر بنایا جائے۔ ڈاکٹر بخاری نے مذہبی امور کی محکمانہ ترقی کمیٹی کے اجلاس میں کئی علماء کے لئے سفارش کی ہے۔ یہ سفارش اچھی اور پازیٹو ہے ورنہ ہمارے معاشرے میں سفارش اور رشوت کے کلچر نے عوام کو مایوس کر رکھا ہے۔ خبر میں کئی مذہبی حضرات کے نام ہیں مگر میں ان کو نہیں جانتا جن دو قابل قدر شخصیات سے باخبر ہوں ان کے نام فہرست میں نہیں ہیں۔ ان میں ایک شاہی مسجد کے مقتدر خطیب اور امام مولانا عبدالخبیر آزاد ہیں۔ وہ شاہی مسجد کے نامور سربراہ مولانا عبدالقادر آزاد کے فرزند ہیں اور دینی حلقوں میں بہت معروف ہیں۔ شاہی مسجد کے خطیب ہونے کے حوالے سے انہیں خطیب شہر بھی کہا جاتا ہے۔ دوسری معزز شخصیت مفتی محمد رمضان سیالوی ہیں ان کے لئے بھی دینی حلقوں میں ایک پسندیدگی پائی جاتی ہے۔ وہ مسجد داتا صاحب کے خطیب اور امام ہیں۔ داتا صاحب کے حوالے سے یہ ایک بڑا اعزاز ہے۔ محکمہ اوقاف کے صوبائی خطیب محمد عارف سیالوی صاحب میرے بھائی اور پیر بھائی ہیں۔ سب لوگ ڈاکٹر بخاری کے لئے عزت رکھتے ہیں۔
برادرم چودھری نثار علی خان بہت دبنگ اور دانا وزیر ہیں۔ ان کے پاس کیا گدڑ سنگھی ہے کہ وہ قائد ایوان اور قائد اختلاف کے ساتھ بیک وقت اچھے برے وقت میں معاملہ کر لیتے ہیں۔ چودھری صاحب کراچی گئے بھی نہیں۔ ایک ٹیلی فون وزیر اعلیٰ سندھ سائیں قائم علی شاہ کو کیا ہے اور سارے معاملات طے پا گئے ہیں۔ رینجرز کراچی کے اختیارات میں 90دن کی توسیع کر دی گئی ہے۔ انہیں پولیس کے اختیارات بھی دے دئیے گئے ہیں۔ رینجرز دہشت گردوں بھتہ خوروں اور اغوا کاروں کے خلاف کارروائی کے ساتھ ساتھ دہشت گردوں کے معاونین اور سہولت کاروں کے خلاف بھی کارروائی کر سکیں گے۔ واضح رہے کہ اس مسئلے پر سندھ اور وفاق کے درمیان شدید کشیدگی پیدا ہوئی تھی۔ قائم علی شاہ، خورشید شاہ، مولا بخش چانڈیو اور پیپلز پارٹی کے لوگ چودھری نثار علی خان کے خلاف بیانات دیتے رہے ہیں۔ ان کے ’’گراں قدر خیالات‘‘ ایک فون کے بعد بدل گئے۔ تبدیلی آ نہیں رہی آ چکی ہے۔ اب لوگوں کو ریحام خان کے ٹی وی پروگرام ’’تبدیلی‘‘ میں شریک ہونا چاہئے۔
پی آئی اے کے حوالے سے برادرم توفیق بٹ کا کالم پڑھنے سے تعلق رکھتا ہے۔ دوسری قسط میں وہ پی آئی اے کی تباہی کی لرزہ خیز تاریخ کا پردہ چاک کریں گے۔ اس میں پی آئی اے کے ملازمین کی ’’کارکردگی‘‘ کا ذکر بھی ہو گا۔ پی آئی اے میں ہر حکومت نے سیاسی اور ناجائز بھرتیوں کی بھرمار کی۔ موجودہ حکومت تین بار اقتدار میں آئی ہے۔ ایک جہاز کے لئے زیادہ سے زیادہ ایک سو پچاس ملازمین ہوتے ہیں۔ پاکستان میں ایک جہاز کے لئے سات سو پچاس ملازمین ہر وقت ’’تازہ دم اور سرگرم‘‘ رہتے ہیں۔ ابھی اور بھی لوگوں کی گنجائش ہے؟ کہتے ہیں جو ملازمین ہڑتال پر ہیں وہ صرف تنخواہ لینے کی تکلیف برداشت کرتے ہیں۔ ان کے نزدیک ملازم اور ملزم میں فرق نہیں ہے۔ یہ فرق حکمران اور افسران بھی سمجھتے ہیں۔ ان کے خیال میں ہر ملازم ملزم ہی ہوتا ہے۔ اس کے ساتھ ایسا ہی سلوک روا رکھا جاتا ہے۔ وہ بھی اب ملزموں کی کارروائی اور کارکردگی دکھانے کے ماہر ہو چکے ہیں۔
پی آئی اے کے تین ’’ملزم‘‘ کراچی میں قتل کر دئیے گئے ہیں۔ کوئی بھی ادارہ ذمہ داری قبول نہیں کر رہا ہے۔ الزام رینجرز پر لگانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ رینجرز کو اختیارات دینے کے بعد بے اختیار کرنے کا یہ ’’مناسب‘‘ موقع ہے۔ پی آئی اے کو سنوارنے کا وعدہ انتخابی مہم کے دوران کیا گیا تھا۔ اسے وہ پی آئی اے بنا دینے کا اعلان کیا گیا جو قیام پاکستان کے ابتدائی دنوں میں تھی۔ پورا پاکستان ہی ایسا بنا دینے کا انتخابی وعدہ سیاستدان کرتے رہتے ہیں۔ ہم نے بہت ترقی کی ہے جسے ترقیٔ معکوس کہتے ہیں۔ آج کل اس ترقی کے لئے مبارکباد کے مستحق صرف اور صرف اسحاق ڈار ہیں۔ انہوں نے قرضوں کے لئے شرط کے طور پر پی آئی اے کی نجکاری کا وعدہ آئی ایم ایف کے ساتھ کیا ہے اس کے بعد نجکاری کے لئے سٹیل ملز کی باری آ گئی ہے۔ سٹیل ملز میں لوٹ مار کا کارنامہ پی آئی اے سے کہیں زیادہ ہے۔ اس کے بعد ریلوے کی باری ہے۔ اس کے لئے وزیر ریلوے خواجہ سعد رفیق کرپٹ لوگوں کے سامنے ڈٹ کر کھڑے ہو جائیں گے۔ ریل ہو گی تو ریل پیل ہو گی۔ واپڈا کی باری آئے گی مگر اس سے پہلے کالاباغ ڈیم کا فیصلہ ہو گا اور وہ کبھی نہیں ہوگا؟
اپوزیشن کے سیاستدانوں نے صرف حکومت کی مخالفت کے زعم میں پی آئی اے کے بیکار ملازمین کی ہڑتال کی حمایت کی ہے یہ حب علی نہیں ہے بغض معاویہ ہے۔ ہماری حکومتیں ہمیشہ یہی کرتی ہیں جو موجودہ حکومت کر رہی ہے اور اپوزیشن بھی یہی کچھ کرتی ہے جو آج کل کر رہی ہے۔ حکومت کی حکمت عملی بلکہ ’’حکومت عملی‘‘ یہی ہوتی ہے اور اپوزیشن کی پوزیشن بھی یہی ہوتی ہے۔
عمران خان کہتے ہیں کہ نواز شریف آمر بن چکے ہیں یہی بات تحریک انصاف کے حوالے سے عمران کے بارے میں بھی کہی جاتی ہے۔ ہمارے ہاں ان لوگوں کو پارٹی لیڈر نہیں کہنا چاہئے بلکہ پارٹی حکمران کہنا چاہئے۔ ’’صدر‘‘ زرداری کہتے ہیں کہ کراچی حادثے پر ماڈل ٹائون صدمے کی طرح پردہ نہیں ڈالنے دیں گے۔ جب یہ پردہ ڈالا گیا تو میں ’’صدر‘‘ تھا۔ اب نہیں ہوں۔ گولیاں دس فٹ کے فاصلے سے چلائی گئیں۔ اتنے فاصلے پر نہ رینجرز تھی نہ پولیس۔ یوں بھی یہ واقعہ سندھ حکومت کی حدود میں ہوا ہے۔ کراچی پنجاب کا شہر نہیں ہے۔ ’’صدر‘‘ زرداری بتائیں کہ یہ کیا سازش ہے۔ امریکہ میں بیٹھے ہوئے پاکستان کے حوالے سے سازشوں کا آسانی سے پتہ چل جاتا ہے۔ کہیں قاتل مظاہرین میں تو چھپے ہوئے نہیں تھے۔ شہید بی بی کو بھی گولی دس فٹ سے لگی تھی؟ چودھری شجاعت نے حسب معمول رینجرز کی حمایت کی ہے کہ مظاہرین کو روکنا پولیس کا کام ہے۔ پاک فوج چودھری شجاعت کی ’’سیاست‘‘ سے پہلے ہی باخبر ہے؟
امیر جماعت اسلامی سراج الحق نے کہا ہے ’’حکمرانوں کو کراچی ائرپورٹ کو خون میں نہلانے کا جواب دینا پڑے گا‘‘ ورنہ ہم تو سوال کرتے رہیں گے۔ ہمارے سوال کسی جواب کے منتظر اور مستحق نہیں ہیں۔ یہ بات ان کی ٹھیک ہے کہ ادارے بیچنے کی بجائے کرپشن پر قابو پائیں۔ اس کے ساتھ پرویز رشید کی اس بات پر غور کریں ناکام ہڑتال کو کامیاب بنانے کے لئے خون کی ہولی کھیلی گئی؟ سنیٹر ڈاکٹر قیوم سومرو کی اس بات پر بھی غور کریں۔ انہوں نے کہا کہ پی آئی اے کی بے شمار اور بیش بہا پراپرٹی (جائیدادیں) ہیں۔ حکمرانوں کی نظر ان پر ہے۔ کسی اپنے کو اونے پونے بیچیں گے اور اپنا حصہ وصول کریں گے؟ اسحاق ڈار جواب دیں۔