• news
  • image

کشمیر کیلئے چین کوئی کردار ادا کرے

یوم کشمیر پر تقریبات ہوتی ہیں مگر ایک اہم تقریب ہمیشہ نظریہ پاکستان ٹرسٹ میں ہوتی ہے۔ نظریہ پاکستان ٹرسٹ کے برادرم سیف اللہ چودھری نے بتایا کہ شہر میں ریلیاں تو بہت نکل رہی ہیں مگر باقاعدہ ایک یادگار تقریب یہاں ہو رہی ہے۔ 5 فروری کو اس تقریب کشمیر میں محبوب و مرشد مجید نظامی صدارت کرتے تھے۔ اب بھی اس روایت کو شاہد رشید زندہ رکھے ہوئے ہیں۔ 5 فروری کو نظریہ پاکستان ٹرسٹ کے چیئرمین رفیق تارڑ نے صدارت کی۔ بہت بھرپور تقریب تھی۔ سٹیج شاہد رشید کے پاس تھا۔ اس نے مجید نظامی کے اس جملے سے آغاز کیا جو وہ ہمیشہ دہراتے تھے۔ نظامی صاحب کہتے تھے کہ قائداعظم نے فرمایا تھا۔ کشمیر پاکستان کی شہ رگ ہے۔ کیسی گہری بصیرت قائداعظم کے ان الفاظ میں تھی۔ آج بھارت کشمیر سے آنے والے پاکستانی دریا¶ں پر ڈیم بنا کے پاکستان کا پانی روک رہا ہے۔ یہ بھی نظامی صاحب کہتے تھے کہ بھارت پاکستان کو ریگستان بنا دینا چاہتا ہے۔ تو کشمیر پاکستان کی شہ رگ ہی ہے۔ اس کے لئے ہمارے حکمرانوں اور ہمارے جرنیلوں کو سوچنا ہو گا۔ 

ہمارے سپہ سالار جنرل راحیل شریف نے کہا ہے کہ کشمیر تحریک پاکستان کا نامکمل ایجنڈا ہے۔ بہت خوبصورت بات سلطان باہو کے صاحبزادے سلطان احمد علی نے کی کہ ہمیں یہ نہیں کہنا چاہئے کہ کشمیری آزادی مانگتے ہیں۔ کشمیری اپنا حق مانگتے ہیں کہ وہ بھارت سے الگ ہو کر پاکستان کا حصہ بننا چاہتے ہیں۔ یہی تحریک پاکستان کا نامکمل ایجنڈا ہے۔ قائداعظم کمال کے لیڈر ہیں کہ انہوں نے ہندوستان میں تحریک آزادی اور تحریک پاکستان کو رلا ملا دیا۔ بھارت کو صرف آزادی ملی۔ ہمیں آزادی کے ساتھ پاکستان بھی ملا۔ صاحبزادہ صاحب نے ایک اور انوکھی بات کی کہ نظریاتی ریاست جغرافیہ نہیں ہوتا۔ زندہ قوموں کے توسیع پسندانہ عزائم ہوتے ہیں۔ ہم کشمیر کے ساتھ جونا گڑھ اور حیدر آباد کا مطالبہ بھی کرتے ہیں۔
کئی دفعہ بھارت نے کمزوری دکھائی۔ انہوں نے یہ تجویز دی تھی کہ آپ کشمیر لے لو اور حیدر آباد ہمیں دے دو مگر پہلے وزیراعظم لیاقت علی خان نے انکار کر دیا کہ ہم پہاڑوں پر کیوں اکتفا کریں۔ آج یہ ثابت ہوا ہے کہ یہ پہاڑ پاکستان کی زندگی کے لئے کتنے ضروری ہیں؟ سارے دریا کشمیر کے انہی پہاڑوں سے نکلتے ہیں۔ اور ان پر بھارت نے کئی ڈیم بنا لئے ہیں۔ اور پاکستان کے سیاستدان اپنے ایک کالا باغ ڈیم کے لئے لڑ رہے ہیں۔ پاکستان کے اندر بھارت کے لوگ موجود ہیں۔
پھر ایک بار جب پاکستان کے پٹھانوں نے بھارت کو ہرا کے پیچھے دھکیلا اور آزادکشمیر لے لیا اور پھر سارا کشمیر بھی فتح ہونے کے قریب تھا تو لیاقت علی خان نے جنگ بندی کر لی۔ جو آزاد کشمیر ہمارے پٹھان مجاہدین نے حاصل کیا اس کے لئے کہا گیا کہ آزاد کشمیر نہ آزاد ہے نہ کشمیر ہے۔
کہتے ہیں جو حسن و جمال مقبوضہ کشمیر میں ہے فطری حسن اور انسانی جمال ہم اس سے محروم ہیں۔ ہم اس حسن کو انجوائے کیسے کر سکتے ہیں ہم تو اسے دیکھ بھی نہیں سکتے۔ سنا ہے کشمیر جنت کی طرح ہے تو پھر وہاں وہ سب کچھ ہو گا جو جنت میں ہے؟ وہاں دوسری نعمتوں کے علاوہ حوریں بھی ہو ں گی تو کیا وہ ہندو فوجی جوانوں اور فوجی افسروں کے ناجائز قبضے میں ہیں۔ کافر تو جنت میں داخل بھی نہیں ہو سکتے مگر ہم مسلمانوں پر اس جنت کے دروازے بند ہیں تو اس کے لئے سوچیں کہ کہیں ہم نام کے مسلمان تو نہیں ہیں؟
برادرم فاروق الطاف نے بہت تاریخی بات کی کہ تین دفعہ بھارت ٹوٹنے سے بچ گیا۔ ڈاکٹر رفیق احمد نے بھی موثر گفتگو کی انہوں نے بھی کہا کہ بھارت بت کدہ ہے اور بت کدے کو ٹوٹنے سے کوئی نہیں بچا سکتا۔ فاروق الطاف نے کہا ایک کارگل کی معرکہ آرائی بھی ہے۔ اسرائیل کے کمانڈر ان چیف نے اپنے بیان میں کہا تھا کہ بھارت کو ہمارا شکر گزار ہونا چاہئے کہ ہم نے عملی طور پر عسکری مداخلت کر کے بھارت کو بچا لیا ورنہ پاکستان نے اسلحے کے سارے بھارتی ذخیرے تباہ کر دئیے تھے اور کارگل کشمیر کا حصہ ہے۔ تب آرمی چیف جنرل پرویز مشرف نے کارگل پر حملے کے لئے وزیراعظم نوازشریف سے منظوری لی تھی مگر بعد میں نوازشریف کے ساتھی منکر ہو گئے۔ نوازشریف نے امریکہ جا کے سارا معرکہ الٹا کے رکھ دیا۔ صدر بن کے جنرل مشرف بھی کشمیر کے معاملے میں اس حد تک پیچھے ہٹ گئے کہ کوئی پاکستانی حکمران اور بالخصوص نوازشریف بھی اتنا پیچھے نہیں ہٹے۔ ہمارے حکمرانوں پر کیا جادو ہو جاتا ہے کہ وہ بھارت دوستی کے دھوکے سے باہر ہی نہیں آتے۔ جب حکمران نہیں رہتے تو بھارت کے بہت خلاف ہو جاتے ہیں۔ آج کل ”جنرل صدر“ مشرف کے بھارت اور کشمیر کے جارحانہ بیان پڑھ لیں؟
کشمیر کا مسئلہ اب حل ہونا چاہئے۔ اس حوالے سے نظر صرف چین پر جا کے ٹھہرتی ہے۔ وہ اس خطے کی سپرپاور ہے۔ مسئلہ کشمیر کا حل چین کے لئے بے حد ضروری ہے۔ اقتصادی راہداری کے حوالے سے اس معاملے کو اچھی طرح سمجھا جا سکتا ہے۔ پاکستان تو اس مسئلے کے حل کے لئے ہمیشہ تیار ہے۔ بھارت کو بھی اب کڑوی گولی نگلنا پڑے گی۔ اس کا ”بخار“ اترے گا۔ تو بات بنے گی۔ استحکام کے لئے چین بھارت اور پاکستان کو کوئی مشترکہ پالیسی اختیار کرنا ہو گی۔ مسئلہ کشمیر بھی اسی مشترکہ پالیسی کے ذریعے حل ہو گا۔ مگرچین اور پاکستان کے لئے بھارتی دشمنی کیسے نکلے گی؟ میں اپنے چند اشعار کشمیر کے لئے لکھنے سے پہلے یہ کہنا چاہتا ہوں کہ میں خطے میں سلامتی خوشحالی اور امن چاہتا ہوں۔ دنیا کی تاریخ گواہ ہے کہ کبھی کوئی آزادی کی تحریک ناکام نہیں ہوئی۔ تحریک آزادی کشمیر بھی کامیاب ہو گی۔ بھارت عزت کے ساتھ اس عالمی معاملے کی نزاکت کو سمجھے اور فوری فیصلہ کرے۔
اس تقریب میں میرے ساتھ ایک زیادتی ہوئی کہ صاحبزادہ صاحب نے مجھے برادر بزرگ کہہ دیا اور سب کے سامنے میری طرف اشارہ بھی کیا۔ میں نے کہا کہ بزرگ ہونگے آپ کے بزرگ؟ میں کیوں بزرگ ہوں میں بھی عمران خان نیازی کی طرح شادی کی عمر میں ہوں مگر میرے ساتھ مسئلہ یہ ہے کہ میں بیوی کو طلاق دینے کے حق میں نہیں ہوں ہم نے کشمیری لیڈر یاسین ملک کو پاکستان سے ایک خوبصورت دلہن مشعل بی بی دے دی ہے تو اب وہاں کی کسی شمع بی بی پر ہمارا حق ہے۔؟
تقریب میں نامور شاعر ناصر زیدی نے کشمیر کے حوالے سے خوبصورت اشعار سنا کے محفل لوٹ لی تو میرے اندر کا شاعر بھی جاگا اور میں نے بھی دو تیں اشعار سنائے ورنہ میں اب مشاعرے بازی سے بھاگتا ہوں ۔ میں کہا کرتا ہوں کہ شاعری میری پہلی محبت ہے اور اس کا وہی حشر ہوا ہے۔ جو پہلی محبت کا ہوتا ہے۔
ظلم و ستم ہے ریت پر تحریر کی طرح
میں اپنے خوں میں گھل گیا تقدیر کی طرح
جنت نظیر وادی ہے میدان کربلا
ہر گھر میں ایک شخص ہے شبیرؑ کی طرح
اپنے لہو میں پھول کھلانے کا وقت ہے
ہر دل ہے آج خطہ کشمیر کی طرح
اک خوف بن کے زندہ ہیں دشمن کے واسطے
ہر سانس اپنی نعرہ تکبیر کی طرح
آتش فشاں ہے ان دنوں یہ آتش چنار
آنکھیں ہیں گویا میر کی تصویر کی طرح

epaper

ای پیپر-دی نیشن