ہماری خارجہ پالیسی کا محور کشمیر نہیں رہا: فضل الرحمن
اسلام آباد + مظفر آباد (آن لائن+ این این آئی) جمعیت علماء اسلام (ف)کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نے کہا ہے کہ کشمیر متنازعہ علاقہ ہے جس کا فیصلہ کشمیریوں نے کرنا ہے اور اسے اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق حل ہونا چاہئے، دنیا پر جنگ مسلط کرکے انسانی حقوق کو معطل کرنے والی قوتوں سے مسئلہ کشمیرکے حل کی توقع نہیں، حکومت کو محنت کرنا ہوگی۔ گزشتہ روز ایک انٹرویو میں فضل الرحمن نے کہاکہ کشمیرکمیٹی کا کام سفارشات تیارکرنا ہے، پالیسی حکومت بناتی ہے ہم روایات میں پھنسے ہوئے ہیں، میرا یہ اصرار ہے کہ کشمیرکمیٹی کا30 سالوں سے کردار ہے اورکافی کام ہو چکا ہے اب کشمیرکمیٹی کے کردارکو مستحکم کرنے کی ضرورت ہے، مسئلے میں کلیدی کردار حکومت اور وزارت خارجہ کا ہوتا ہے، پارلیمنٹ کو پالیسیوں میں دخیل ہونا چاہئے، ہماری خارجہ پالیسی کا محورکشمیر ہونا چاہئے، جو نہیں رہا اس کی جگہ دہشتگردی، انتہا پسندی خطے اور افغان صورتحال نے لے لی ہے۔ قومی سلامتی کو اولین حیثیت ضرور دیں لیکن قومی سلامتی کی ترجیحات میں کشمیرکوسرفہرست رکھا جانا چاہئے، مسئلہ کشمیرکے حل سے ہی خطے میں امن آئے گا اور اس مسئلے کا اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق حل ممکن ہے۔ بھارت مذاکرات کے لئے سنجیدہ نہیں۔ انہوںنے کہاکہ واجپائی اور نوازشریف نے مسئلہ کشمیر پر بات کوآگے بڑھایا تھا لیکن مودی سرکارکی سوچ انتہاء پسندانہ ہے ان کی بھارتی گجرات میں مسلمانوں کے خلاف روش کو دنیا جانتی ہے۔ بین الاقوامی قوتوں سے مسئلہ کشمیرکے حل کی توقع نہیں رکھی جاسکتی ،یہ قوتیں انسانی حقوق پرکیسے بات کریں گی جنہوں نے سلامتی کونسل کو یرغمال بنا لیا ہے، امن وامان اوردہشتگردی کے نام پرمدارس کی تذلیل برداشت نہیں ،حکومت جھوٹ بولنا بندکرے ، مسئلہ مدارس کی رجسٹریشن کا نہیں مدارس رجسٹرڈ ہیں حکومت امریکہ کے کہنے پر مدارس کو دہشتگرد قرار دیکر طاقت کے استعمال کا جواز بنا رہی ہے۔ علاوہ ازیں مظفر آباد میں کشمیر کمیٹی کے اجلاس کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے فضل الرحمن نے کہا ہے کہ کشمیر کا تنازعہ پاکستان اور بھارت کمے تعلقات میں مرکزی حیثیت رکھتا ہے۔ مسئلہ کشمیر کے حل تک جنوبی ایشیا میں پائیدار امن ناممکن ہے۔ بھارتی جابرانہ قبضے کے تحت مقبوضہ کشمیر کا سیاسی عمل اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق حق خودارادیت کا متبادل نہیں ہو سکتا ہے۔