اُردو یونیورسٹی کی تعمیرات میں کرپشن کا خط نیب کو موصول‘ اعلیٰ حکام پریشان
کراچی (رپورٹ: محمد قاسم) ہائیر ا یجوکیشن کمیشن کے ڈی جی سروسز ڈاکٹرا رشد کامران کے خلاف کروڑوں روپے مالی کرپشن کا خط احتساب بیورو کوموصول ہونے کے بعد ایچ ای سی کے اعلیٰ حکام میں کھلبلی مچ گئی ہے۔ ایک نامعلوم شخص نے وفاقی جامعہ اردو کے رجسٹرار کے جعلی دستخط سے ہائیر ایجوکیشن کمیشن کے چیئرمین ڈاکٹر مختار اورڈی جی سروسز ڈاکٹر ارشد کامران کی کرپشن کی داستان قومی احتساب بیورو کو ارسال کردی ‘ جس کے بعد ڈاکٹر مختار اور ڈاکٹرا رشد کامران نے معاملے کودبانے کیلئے ا علیٰ سطح پر کو ششیں شروع کردی ہیں۔ ذرائع کے مطابق نا معلوم شخص کی جانب سے بھیجے گئے خط کے ساتھ 273 صفحات پرمشتمل ثبوت بھی منسلک ہیں جس میں وفاقی جامعہ اردو گلشن اقبال کیمپس میں ڈاکٹر ارشد کامران کے بطورپروجیکٹ ڈائریکٹر تعمیر ہونے والی انتظامی عمارت کی تعمیر میں کروڑوں روپے کی بے قاعدگیوں کے ثبوت بھی شامل ہیں‘ مذکورہ عمارت کے پروجیکٹ ڈائریکٹر ارشد کامران تھے۔مذکورہ عمارت کے تعمیر کے دوران ہونے والی بے قاعدگیوں کی تحقیقات کیلئے سابق رجسٹرار ڈاکٹر فہیم الدین سول انجینئر رئیس اخترقریشی اور جیالوجی ڈیپارٹمنٹ کے انچارج آفتاب عالم پر مشتمل کمیٹی قائم کردی گئی تھی۔ مذکورہ کمیٹی نے اپنی رپورٹ میں کہا تھاکہ عمارت کی تعمیر میں غیر معیاری میٹریل استعمال کیاگیا ہے جو خام مال معاہدے میں شامل تھا وہ نہیں لگایا گیا۔ سرکاری سطح پر عمارتوں میں پاور سپلائی کیلئے پاکستان کیبل کی اجازت ہے جبکہ مذکورہ پروجیکٹ میں شیرشاہ کے کباڑ مارکیٹ سے کیبل خرید کر لگایا گیا‘سریہ بھی غیرمعیاری استعمال کیا گیا‘ سیمزمک(Seismic) زون میںاستعمال ہونے والی کنکریٹ بھی استعمال نہیں کی گئی۔ بنیادی اصولوں کو نظراندازکردیا گیا ہے۔ کمیٹی نے اپنی رپورٹ میں کہا تھا کہ تمام غیر معیاری اشیاء کے استعمال سے عمارت غیر محفوظ ہے اور ہزاروں طلبہ کی جانوں کو خطرات لاحق ہیں لیکن معاملے کو بعدازاں دبا دیا گیا۔ نیب میں جانے والے خط میں ایچ ای سی کے پروجیکٹس کوفراہم کی جانے والی گاڑیوں کی غیرمنصفانہ تقسیم‘ بیرون ملک اسکالر شپ میں بے قاعدگیاں ‘ لیپ ٹاپ اسکیم میں ہونے والی بے قاعدگیوں اوردیگرکرپشن کاذکرہے۔ تمام الزامات کے ثبوت ہونے کے باوجود نیب نامعلوم وجوہات کی بناء پر معاملے کی تحقیقات کرنے سے اجتناب برت رہی ہے۔