میڈیا ہائوسز پر حملوں کیخلاف پنجاب اسمبلی میں متفقہ مذمتی قرارداد
لاہور (خبرنگار+ سپیشل رپورٹر+ نیوز رپورٹر+ خصوصی نامہ نگار+ کامرس رپورٹر) پنجاب اسمبلی نے میڈیا ہائوسز پرحملوں کیخلاف مذمتی قرارداد متفقہ طور پر منظور کر لی جبکہ حکومت سے مطالبہ کیا گیا صحافی اور میڈیا ہائوسز کی سکیورٹی کو یقینی بنانے کیلئے اقدامات کئے جائیں۔قائد حزب اختلاف محمود الرشید نے سٹی 42کے دفتر پر فائرنگ کے واقعہ کی مذمت کرتے ہوئے سپیکر سے رولز معطل کر کے مذمتی قرارداد پیش کرنے کی اجازت طلب کی جس پر صوبائی وزیر قانون رانا ثنا اللہ نے کہا متفقہ قرارداد پیش کر لی جائے لیکن اس میں حال ہی میں دیگر میڈیا ہائوسز پر ہونے والے حملوں کے بارے میں بھی الفاظ شامل کر لیتے ہیں۔ رانا ثنا اللہ کی طرف سے ایوان میں قواعد و ضوابط کی معطلی کی تحریک کی منظوری کے بعد قراردا دپیش کی گئی جس کے متن میں کہا گیا کہ صوبائی اسمبلی پنجاب کا یہ ایوان پاکستانی پرنٹ و الیکٹرک میڈیا کو دہشت گردی کے خلاف جاری قومی مہم میں رائے عامہ کو ہموار کرنے اورقومی عزم کی بھرپور تائید و حمایت کرنے پر خراج تحسین پیش کرتا ہے۔ صوبائی وزیر زراعت ڈاکٹر فرخ جاوید نے کہا گنے کے کاشتکاروںکو 90 فیصد ادائیگی کر دی گئی ہے رواں سال 80فیصد ادائیگی ہو چکی ہے لیکن پھر بھی تسلیم کرتا ہوں آئیڈیل صورتحال نہیں۔ دو چار مچھلیاں ہیں جو سارے پانی کو گندا کر رہی ہیں ۔ ہم نے ان کی چینی روک کر بیچی ہے اور معاملات بہتر کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ آئی این پی کے مطابق پنجاب اسمبلی میں حکومتی اور اپوزیشن ارکان اسمبلی کے وقفہ سوالات میں غلط جوابات پرشدید احتجاج کیا‘ اپوزیشن ارکان نے پنجاب اسمبلی کی نئی عمارت پر 24گھنٹے کام کرانے کا مطالبہ کر دیا ‘ سپیکر پنجاب اسمبلی نے بھی وقفہ سوالات میں غلط جوابات پر ایکشن لیتے ہوئے صوبائی وزیر مواصلات و تعمیرات کوذمہ داروں کے خلاف سخت کارروائی کی ہدایت کر دی جبکہ سپیکر نے کہا زیر تعمیر اسمبلی کی عمارت کا کام سیشن کے دوران نہیں ہو سکتا لیکن ٹھیکیدار سے کہیں گے و ہ دوسری شفٹ میں کام جاری رکھیں۔ وقفہ سوالات کے دوران سڑکوںکی سالانہ مرمت کے حوالے سے متعدد مقامات پر کاغذات میں روڈز کو ڑھیک کیا گیا لیکن ممبران اسمبلی انکشاف کیا محکمہ غلط بیانی سے کام لے رہا ہے، اس موقع پر ممبران کی طرف سے نشاندہی بھی کی گئی ۔رکن اسمبلی امجد علی جاوید نے ایوان میں انکشاف کیا لاہور فیصل آباد براستہ جڑانوالہ روڈ ٹوٹ پھوٹ کا شکا ر ہے چلنا مشکل ہے لیکن محکمہ نے سوال نمبر2012کے تحریری جواب میں لکھا ہے کہ یہ روڈ بالکل ٹھیک ہے پیچ ورک مکمل ہے کہیں سے بھی ٹوٹ پھوٹ کا شکار نہیں ہے، اسی طرح رکن اسمبلی نے سردار وقاص حسن موکل نے لاہور قصور روڈ فیروز پور روڈ کے بارے میں ایوان کو بتایا کہ یہ سڑک بھی متعدد مقامات سے ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے،جبکہ محکمہ نے سوال نمبر2741کے جواب میں لکھا یہ روڈ مکمل ٹھیک ہے ۔میاں محمد رفیق اور راحیلہ انوار نے شکایت کی لیفکو کی طرف سے جن لوگوںکو ٹال پلازہ فیس کی چھوٹ ہے ان میں صوبائی اسمبلی کے ممبران بھی ہیں لیکن ان کے ساتھ بہت جارحانہ رویہ رکھا جاتا ہے اور ٹال ٹیکس فیس زبردستی وصول کی جاتی ہے، جس پر سپیکر نے ان کی اس شکایت کو گول کرتے ہوئے معاملہ صوبائی وزیر مواصلات کے سپرد کردیا۔ سپیکر نے مولانا محمد الیاس چنیوٹی کی 2 سکیمیں تبدیل کرنے پر بھی محکمہ کے خلاف کارروائی کی رولنگ دی۔ نیوز رپورٹر کے مطابق پنجاب اسمبلی میں زراعت پر بحث کے دوران صوبائی وزیر زراعت پنجاب ڈاکٹر فرخ جاوید نے بتایا حکومت پنجاب نے گنے کے کاشتکاروں کو ادائیگی نہ کرنے پر 52 ایف آئی آر شوگر مل مالکان پر درج کرا دی ہیں، حسیب وقاص شوگر ملز کی طرف سے کاشتکاروں کو گنے کی ادائیگی نہیں کی گئی جس پر حکومت کارروائی کر رہی ہے۔ سری لنکا اور ملائیشیا کو آلو ایکسپورٹ کیا جا رہا ہے۔ 15 فروری سے روس کو آلو کی ایکسپورٹ شروع کر دی جائے گی۔ رانا ثناء نے بتایا جن شوگر ملز کی طرف سے ادائیگی نہیں کی گئی ان کا سٹاک قبضے میں لے کر اگلے 15 روز میں مارکیٹ میں فروخت کر دیا جائے گا۔ اپوزیشن لیڈر محمود الرشید نے کہا حکومت کی ترجیحات میں زراعت 20 ویں نمبر پر ہے یا ہے ہی نہیں۔ چاول، پھٹی، گندم کے سرکاری نرخ کسانوں کو نہیں ملے۔ قبل ازیں شیخ علاء الدین کی طرف سے متعدد تحریک التوائے کار بھی پیش ہوئیں، ایک تحریک التوائے کار میں کہا گیا تاریخی باغ جناح پارک کی دیکھ بھال نہ ہونے سے اس کا حسن ماند پڑ گیا ہے۔ دوسری تحریک میں کہا گیا غیرملکی پیک شدہ فوڈ میں زیادہ تر حرام اجناس شامل ہیں۔ نذر حسن گوندل نے اس حوالے سے بتایا قانون سازی کی جا رہی ہے۔ پنجاب فوڈ اتھارٹی بھی شہریوں کو صاف ستھری معیاری اشیا کے خوردونوش فراہم کرنے میں مصروف عمل ہے۔ خبرنگار کے مطابق محمود الرشید نے کہا بھارت سمیت دنیا کے ترقی یافتہ ممالک اپنے کسان کو سبسڈی دے رہے ہیں مگر پاکستان میں حکومت نے کسان کو زندہ درگور کر دیا ہے۔ بھارت سے سبزیاں درآمد کرکے پاکستانی کسان کو برباد کیا جا رہا ہے۔ کسانوں کیلئے مختص 340 ارب روپے میں سے 12 ارب نوازشریف، شہبازشریف کے اشتہارات پر صرف کر دیا گیا۔ سعدیہ سہیل رانا نے کہا ہم زرعی ملک کہلاتے ہیں مگر غذائی اشیا درآمد کرتے ہیں۔ خصوصی نامہ نگار/ کامرس رپورٹر کے مطابق وسیم اختر کے سوال پر سپیکر پنجاب اسمبلی اور صوبائی وزیر مواصلات و تعمیرات تنویر اسلم نے ایوان کو یقین دہانی کرائی ہے۔ پنجاب اسمبلی کی نئی بلڈنگ کی تعمیر کا کام پنجاب اسمبلی کے رواں اجلاس کے بعد مزید تیز کیا جائے گا۔ جماعت اسلامی کے پارلیمانی لیڈر وسیم اختر نے مطالبہ کیا مسئلہ کشمیر کے حل تک بھارت سے ہر طرح کی تجارت ختم کی جائے، پاکستانی کسان کو ٹیوب ویل چلانے کے لئے ڈیزل50 فیصد کم قیمت پر اور زرعی مقاصد کے لئے بجلی 2روپے فی یونٹ فراہم کی جائے۔ سپیشل رپورٹر کے مطابق پنجاب اسمبلی میں حکومت کی تعریفوں کے باوجود ارکان کی اکثریت کاشتکاروں کے مفادات کے تحفظ اور زراعت کی بہتری کی پالیسی بنانے کیلئے متحد ہوگئی۔ ایوان میں پارلیمانی کمیٹی یا کمشن بنانے کی تجویز دی گئی جس سے حکومت نے اتفاق نہیں کیا البتہ زراعت سے متعلقہ قائمہ کمیٹی میں اضافی ارکان شامل کرنے اور جملہ امور کا جائزہ لینے کی تجویز دی۔ ارکان نے زراعت کے بارے میں پالیسیاں کاشتکار دشمن قراردیں اور ان سے متعلقہ ادارے اور محکمے ختم کرکے اوپن مارکیٹ بحال کرنے کا مطالبہ کردیا۔ اپوزیشن ارکان نے کہا طے کیا گیا تھا بحث کے وقت متعلقہ محکموں کے تمام وزیر اور سیکرٹریز موجود ہونگے لیکن یہاں نہ تو وزراء ہیں اور نہ ہی سیکرٹری جس پر وزیر قانون نے بتایا وزیر خوراک اورنج لائن میٹرو ٹرین کے متاثرین کی رقوم کی ادائیگی کے سلسلے میں مصروف ہیں جیسے فارغ ہوں گے، آ جائیں گے۔ محمود الرشید نے حکومت کی طرف سے فراہم کئے جانے والے اعدادو شمار مسترد ک ردئیے اور کہا کاشتکار کسمپرسی کا شکار ہیں اور خود کشیوں پر مجبور ہیں۔ حکومتی رکن چودھری اقبال نے اس کی نفی کرتے ہوئے کہا اپوزیشن لیڈر نے انتہائی ڈروانی صورت پیش کی جبکہ حقائق اس کے برعکس ہیں۔ الیاس چنیوٹی، شاہ محمد کھگہ ، احسن ریاض فتیانہ، ملک احمد خاں بھچر ، وقاص حسن موکل ، میاں اسلم اقبال نے پالیمانی کمیٹی بنانے پر زور دیا جبکہ حکومتی رکن ملک وارث کلو نے کہا آج تک بننے والی تمام پالیسیاں، ادارے اور محکمے کاشتکار دشمن ہیں، کاشتکار کو محکمے کھا رہے ہیں اور اصل فائدہ ملز مالکان اور تاجر اٹھا رہے ہیں۔ بحث جاری تھی کہ اسمبلی کا وقت ختم ہونے پر اجلاس ملتوی کر دیا گیا۔