• news
  • image

’’ مُسّرت‘‘ اور ’’ برداشت‘‘ کی وزارتیں؟‘‘

9 جنوری کو ایک نیوز چینل پر ، خبر آئی کہ ’’ دُبئی کے امیر شیخ محمد بن راشد المکتوم نے ( جو اپنی زندہ دِلی اور نوجوان نسل سے لگائو کے باعث دُنیا بھرکی نگاہوں کا مرکز ہیں) اپنی کابینہ میں ’’ وزیر مملکت برائے مُسّرت‘‘ اور ’’ وزیر مملکت برائے برداشت‘‘ کو بھی شامل کرنے کا اعلان کردِیا ہے ‘‘۔ خبر کے مطابق امیر دُبئی نے بتایا کہ ’’ نئی وزارتیں معاشرے میں مُسّرت اور برداشت کا ماحول اور جذبات پیدا کریں گی‘‘۔ اِس طرح کا فیصلہ اور اعلان کرکے امیر دُبئی نے اُن بادشاہوں اور جمہوری حکمرانوں کو بھی مشعلِ راہ دکھانے کی کوشش کی ہے جِن کے معاشرے کے زیادہ تر لوگوں کو ’’مُسّرت‘‘ نصیب نہیں اور وہاں کے لوگ "Social Animals" تو ہیں لیکن اُن میں ’’ برداشت ‘‘کا مادہ نہیں ہے۔

فارسی کی ایک ضرب اُلمثل ہے کہ ’’ وزیر چُنِیں ، شہریار چُناں‘‘ یعنی بُرے حکمران کے وزیر بھی بُرے ہوتے ہیں ‘‘۔ اِس ضرب اُلمثل کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ ’’ اگر کوئی حکمران عوام دوست ہو تو اُس کے وزیر بھی عوام دوست ہوتے ہیں ‘‘۔ انگریزی کا لفظ "Minister" دراصل "Minister of Religion" کا مخفف ہے ۔ جِس کا مطلب ہے ۔ ’’کلیسائی پادری یا مذہبی رسوم انجام دینے والا ‘‘۔ قدیم بھارت میں ہندوئوں کے چاروں مقدس ویدوں کے منتر پڑھ کر مذہبی رسوم انجام دینے والے شخص کو ’’ منتری‘‘ ( منتر پڑھنے والا ) کہا جاتا تھا ۔
اب دنیا بھر میں ہر وزیر کو "Minister" اور بھارت میں ’’ منتری ‘‘ کہا جاتا ہے اور مسلم ممالک میں ’’ وزیر‘‘ عربی زبان میں ’’ وزیر‘‘ بوجھ اٹھانے والے کو کہا جاتا ہے اور ہر وزیر اپنے بادشاہ/ صد/ وزیراعظم کا بوجھ زیادہ اٹھاتا ہے اور اُسے عوام پر لاد دیتا ہے ۔ پنجابی شاعر سیّد وارث شاہ کے دَور میں وزیر اور منتری تو ہوتے تھے لیکن انہوں نے ’’ مانتری‘‘ (منتر پڑھنے والے )کسی سپیرے کو مشورہ دِیا تھا کہ؎
’’ جے کر منتر کِیل دا نہ آوے
ایویں سُتّڑے ناگ نہ چھیڑئیے نی‘‘
یعنی اگر سانپ کو قابو کرنے کا منتر پڑھنا نہ آتا ہو تو سوئے ہُوئے سانپ کو نہ چھیڑو! ‘‘۔ دُنیا بھر میں عوام دشمن بادشاہوں، فوجی اور جمہوری حکمرانوں کے خلاف جب بھی بھوکے، ننگے اور بے گھر عوام نے عَلم بغاوت بلند کِیا تو وہ قتل ہُوئے، فرار ہُوئے یا زندہ درگور ہوگئے۔ بین الاقوامی تاریخ میں اب بھی عوام دوست بادشاہوں، انقلابی ، فوجی اور جمہوری حکمرانوں کا نام عزت و احترام کی روشنائی سے رقم ہے اور اُن کے وزیروں کا بھی۔
قدیم بھارت میں وِشنو دیوتا کے اوتار ’’ بھگوان رام‘‘ کے مثالی دَورِ حکومت کو ’’ رام راج ‘‘ کا جاتا ہے ۔ تحریک آزادی میں ہندوئوں کے باپو گاندھی جی نے آزاد بھارت میں ’’ رام راج ‘‘ قائم کرنے کا وعدہ کِیا تھا جو وہاں کبھی نہیں قائم ہو سکا۔ قائدِاعظمؒ کے ذہن میں خلیفۂ دوم حضرت عُمر بن الخاطبؓ کی قائم کردہ فلاحی مملکت کا نقشہ تھا۔ انہوں نے کئی بار کہا تھا کہ ’’ پاکستان کو جدید اسلامی، جمہوری اور فلاحی مملکت بنایا جائے گا ‘‘۔ لیکن حقوق اُلعباد کو نظر انداز کرنے والے مولوی حضرات صِرف اپنی مرضی کا اسلام اور نظامِ شریعت کا عَلم اُٹھائے ہُوئے ہیں ۔ اُن میں سے کچھ دہشت گردوں کے سہولت کار بھی ہیں جو اپنی مرضی کا اسلام نافذ کرنے کے لئے انتخابات میں کبھی بھی بھاری مینڈیٹ حاصل نہیں کر سکے۔پاکستانی معاشرے کو خاص طور پر غُربت کی لکیر سے نیچے زندگی بسر کرنے والے 60 فی صد لوگوں کو کبھی بھی ’’مُسّرت‘‘ نصیب نہیں ہُوئی۔ جب بھی بالائی طبقہ کے پیدا کردہ مسائل کے باعث اُن کی ’’ برداشت کا مادہ‘‘ ختم ہو جاتا ہے تو ’’ بدترین جمہوریت‘‘ کو ختم کر کے کوئی فوجی آمر آجاتا ہے ۔
دُبئی میں جمہوریت نہیں امارت ہے اور امارت کے تابع وزارتیں ہیں۔ "Free Port" ہونے کی وجہ سے ہمارے سابق اور حاضر سروس حکمران "Freely" وہاں جاتے آتے ہیں۔ جنابِ آصف زرداری کا تو وہاں اپنا ’’ بلاول ہائوس‘‘ ہے اور وفاقی وزیر خزانہ جناب اسحاق ڈار نے اگرچہ دوسری شادی نہیں کی لیکن دُبئی کو اُن کا ’’دوسرا گھر‘‘ کہا جاتا ہے۔ ’’وزارتِ مُسّرت‘‘ کے قیام سے پہلے ہی جنابِ ڈار وہاں مُسّرتیں سمیٹنے کے لئے بار بار جاتے ہیں لیکن واپسی پر پاکستان کے عوام کو حِصّہ نہیں دیتے ۔ جنابِ ڈار نئے نئے وزیرِ خزانہ بنے تھے ۔ ایک ٹیلی ویژن انٹرویو میں اینکر پرسن نے پوچھا ’’محترم ڈار صاحب!۔ یورپی ملکوں میں دس دس اور پندرہ پندرہ سال اشیائے خورونوش کی قیمتیں بڑھنے نہیں دی جاتیں۔ کیا پاکستان میں ایسا نہیں ہوسکتا؟‘‘ تو ڈار صاحب نے اپنے چہرے پر مسکراہٹ بکھیرتے ہُوئے کہا کہ ’’ جی نہیں!۔ پاکستان میں "Free Economy" ہے ۔ اب ’’ فری اکانومی‘‘ میں غریبوں کو ’’ مُسّرت‘‘ کیسے نصیب ہوگی؟۔
مجھے 1981ء اور 1988ء میں دوبار دُبئی کے ایک فائیو سٹار ہوٹل میں ٹھہرنے کا موقع مِلا۔ پہلی بار مَیں حکومت پاکستان کا مہمان تھا اور دوسری بار بلغاریہ کا ، جب مَیں بلغاریہ کے دَورے پر جاتے ہُوئے دُبئی ٹھہرا تھا ۔ دونوں بار مَیں نے صرف دُبئی کے حکمرانوں سے ملاقاتیں کِیں اور اُن سے مُسّرتیں سمیٹ کر وطن واپس آگیا ۔ اب صورت یہ ہے کہ ’’نظریۂ پاکستان فورم‘‘ کے صدر گلاسگو کے ’’ بابائے امن‘‘ ملک غلام ربانی کا پوتا مومن ربانی دُبئی کی ایک کاروباری شخصیت ہے ، اُس نے مجھے کئی بار دُبئی میں مہمان نواز ی کی پیشکش کی ہے ۔ ’’ نوائے وقت‘‘ کے ڈپٹی ایڈیٹر برادرم سعید آسیؔ کا آئی ٹی انجینئر بیٹا شاہد سعید بھی ابوظہبی میں ہے ۔ میرا سب سے چھوٹا بیٹا شہباز علی چوہان بھی دُبئی کی ایک موبائل کمپنی میں اچھی پوسٹ پر ہے ۔ مَیں سوچ رہا ہُوں کہ کیوں نہ مَیں ’’بابائے امن‘‘ اور برادرم سعید آسیؔ کو اپنے ساتھ دُبئی چلنے کی درخواست کروں؟۔ میرے اِن دونوں دوستوں میں مجھ سے زیادہ ’’ قوتِ برداشت‘‘ ہے ۔ وہ اگر دُبئی کے ’’ وزیر مملکت برائے برداشت‘‘ کے ساتھ محفلیں سجائیں تو مَیں وقت نہیں نکال سکوں گا لیکن وہاں کے ’’ وزیر مملکت برائے مُسّرت‘‘ سے ضرور ملاقات بلکہ ملاقاتیں کروں گا ۔
پنجابی کی نامور فلمی ہیروئن مُسّرت نذیر جوانی میں ہی شادی کر کے کینیڈا چلی گئی تھی، کئی سال بعد وطن واپس لوٹی تو اُس نے پنجابی لوک گیتوں ( خاص طور پر شادی بیاہ کے گیتوں) میں ماضی اور حال کی سبھی گلوکاروں کو مات دے دی تھی۔ مَیں نے کئی بار اپنے عزیز وں / رشتہ داروں کے بیٹوں ، بیٹیوں کی شادیوں پر مُسّرت نذیر کے گائے ہُوئے لوک گیت سُنے تو مجھے بہت مُسّرت ہُوئی۔ جناب عمران خان نے ایک بار دھمکی دی تھی کہ ’’ مَیں وزیراعظم نوازشریف کے گائے ہُوئے گانوں کی کیسٹ مارکیٹ میں لے آئوں گا‘‘۔ لیکن خان صاحب کا وعدہ نہ جانے کب پُورا ہو؟ ۔ لیکن مَیں منتظر ہُوں کہ شاید جناب وزیراعظم کے گانے سُن کر عوام کو مُسّرتیں نصیب ہو جائیں ؟۔ مَیں نے 27 جولائی 1994ء کے اپنے کالم میں چیلنج کِیا تھا کہ ’’ ہے کوئی کلاسیکی گلوکار ! جو ایسا راگ گائے جو رزقِ حلال سے اپنا اور اپنے اہلخانہ کا پیٹ بھرنے والوں کی زندگی میں مُسّرتیںبکھیر دے؟‘‘۔ میرے چیلنج کو 21 سال گُزر گئے ۔ اب دُبئی سے ایک ’’ مُسّرت افزاء ‘‘ جھونکا آیاہے ۔ یہ جھونکا پاکستان تک کب پہنچے گا؟ دیوانِ حافظ سے فال نکالنا پڑے گی ۔ ’’ برداشت‘‘ کی بھی کوئی حد ہوتی ہے؟۔

epaper

ای پیپر-دی نیشن