ملتان میں اکادمی ادبیات پاکستان اور لاہور
ایک زمانہ تھا کہ اکادمی ادبیات پاکستان ایک بہت سرگرم ادارہ تھا۔ کل پاکستان رائٹرز کانفرنسیں ہوتی تھیں۔ ملک بھر سے لکھنے والے اکٹھے ہوتے تھے۔ اہل قلم کا میلہ ہوتا تھا۔ تخلیقی میلہ اور ادبی میلہ؟ میری کسی حد تک دوستی اپنے پیارے وطن کے اہل قلم سے ہوئی۔ اب تک جو قائم ہے یہ سلسلہ صدر جنرل ضیاء الحق کے زمانے میں زیادہ بھرپور اور جاندار تھا۔ یہ ادبی اجتماعات کسی حد تک سیاسی بھی بن جاتے تھے۔ اسلام آباد اور راولپنڈی کے سب لوگ آ جاتے تھے جن میں سیاستدان بھی ہوتے تھے۔ پھر اسے نجانے کس کی نظر لگ گئی ہے۔ بیکار سیاسی سرگرمیوں نے بامعنی مصروفیات کو بہت نقصان پہنچایا۔ سیاسی سرگرمی بھی صرف بیانات کی حد تک ہے اور جوڑ توڑ ایک دوسرے پر بلاوجہ تنقید برائے تنقید جسے مخالفت برائے مخالفت کہنا چاہئے۔
جنرل ضیاء میں تو ادبی ذوق و شوق بھی تھا۔ ایک ہوٹل میں اہل قلم کے بڑے کھانے پر میری ملاقات جنرل صاحب سے ہوئی۔ وہ اتنی گرمجوشی اور خوشدلی سے ملے کہ میں کبھی نہ بھول سکوں گا۔ مجھے کہنے لگے کہ تم لاہور آ گئے ہو تو میانوالی کا کیا بنے گا۔ میں نے کہا کہ جنرل صاحب آپ کی زمینیں بھی میانوالی میں ہیں۔ آپ صدر بننے سے پہلے میانوالی جاتے بھی رہے ہو۔ اب صدر مقام تو میانوالی نہیں ہو سکتا۔ آپ بھی تو کبھی میانوالی نہیں گئے۔ میانوالی میرے دل میں ہے میں نے لاہور میں ایک میانوالی آباد کی ہوئی ہے۔ واضح رہے کہ کچھ دنوں کے بعد جنرل ضیاء میانوالی کے دورے پر گئے اور مجھے بھی یاد کیا۔ کوئی کچھ بھی کہے مجھے جنرل ضیاء الحق اچھا لگتا ہے۔ بس یہ کہ بھٹو کو پھانسی جنرل صاحب کو نہیں دینا چاہئے تھی۔ مگر بھٹو کو پھانسی اسی نے دلوائی جس نے جنرل ضیاء کا طیارہ کریش کرایا تھا۔ دونوں کا قاتل ایک ہے۔ مگر ہمارے سیاسی لوگ بہت چھوٹے ذہن کے خودغرض اور مفاد پرست لوگ ہیں؟
اکادمی ادبیات پاکستان کے پلیٹ فارم پر اسلام آباد میں چیئرمین پروفیسر ڈاکٹر قاسم بگھیو جو نہ کر سکے۔ وہ ملتان میں جا کے کر آئے۔ ملتان میں پاکستان لٹریری فورم کی طرف سے معروف اور سرگرم ادیب محمد اظہر مجوکہ نے ان کے لئے ایک شاندار تقریب پذیرائی کا اہتمام کیا۔ ڈاکٹر بگھیو خاص طور پر ملتان گئے جہاں جنوبی پنجاب کے ہر علاقے سے اہل قلم شریک ہوئے اور مظفرگڑھ، میلسی، لودھراں اور کئی دوسری بستیوں سے لکھنے والے بڑے ذوق و شوق سے آئے۔ میں جنوبی پنجاب کے ہر قابل ذکر علاقے میں گھومتا رہا ہوں
وچ روہی دے رہندیاں نازک نازک جٹیاں
راتیں کرن شکار دِلیں دے ڈینہاں دلوڑن مٹیاں
دریا کے کنارے بستیوں میں نازک نازک جٹیاں رہتی ہیں جو راتوں کو دلوں کا شکار کرتی ہیں اور دن کو لسی بناتی ہیں۔ یہ شعر مجھے بہت بڑے رومانٹک صوفی شاعر خواجہ فرید کا اچھا لگتا ہے
آ چنڑوں رل یار پیلوں پکیاں نی وے
یارو آئو مل کر پیلوں (بہت خوبصورت سرائیکی پھل) شاخوں سے چن لیں کیونکہ آج کل پیلوں پکی ہوئی ہیں اور خوبصورتی اور رومانس کی بہار آئی ہوئی ہے۔
میرے بھائی اور بہت بڑے ادیب اظہر مجوکہ نے مجھے کس بستی میں پہنچا دیا ہے۔ مجھے یقین ہے کہ پروفیسر ڈاکٹر قاسم بگھیو بھی یہ سب نعمت اور امانت جھولیاں بھر کے اپنے ساتھ لے گئے ہوں گے۔ جن باتوں کا اعلان وہ اسلام آباد میں نہیں کرتے وہ ملتان میں آ کے کیا۔ اظہر مجوکہ سے گزارش کہ وہ بگھیو صاحب کو بار بار ملتان بلائیں۔ انہوں نے ملتان میں اکادمی ادبیات کے علاقائی دفتر کے قیام کا اعلان کیا۔ فوری طور پر دو فوکل پرسن کے نام بھجوانے کی ہدایت کی۔ معلوم ہوا ہے کہ اپنا یہ وعدہ انہوں نے کسی حد تک پورا کر دیا ہے۔ سنا ہے برادرم عرفان صدیقی کے ساتھ میٹنگ میں یہ فیصلے ہوئے ہیں۔ آج کل عرفان صدیقی ادبی معاملات میں بہت دلچسپی لے رہے ہیں۔ اس کے لئے اہل قلم ان کے شکرگزار ہیں۔ اس کے ساتھ میری خواہش ہے کہ کبھی کبھی وہ کالم لکھا کریں۔ اللہ نے انہیں ایک بہترین اسلوب عطا کیا ہے۔
اس موقعے پر انہوں نے اولیاء کی نگری ملتان میں بہت جلد ایک بڑی صوفی کانفرنس کے انعقاد کی خوشخبری بھی سنائی۔ میں اتنا خوش ہوا کہ میں بھی اس قومی کانفرنس میں شریک ہوں گا۔ مجھے بھی صوفی اچھے لگتے ہیں۔ میری دعا ہے کہ ہمارے مولویان کرام بھی کچھ کچھ صوفی ہو جائیں۔
اکادمی ادبیات کے چیئرمین نے یہ خوشخبری بھی ملتان میں سنائی کہ اسلام آباد میں پانچ روزہ انٹرنیشنل رائٹرز کانفرنس منعقد کی جائے گی۔ اس سے پہلے نیشنل رائٹرز کانفرنسیں ہوتی تھیں اور تین روز کے لئے ہوتی تھیں۔ اس کے لئے ہم بگھیو صاحب کو پیشگی مبارکباد دینے کے علاوہ برادرم اظہر مجوکہ ملتان کا بھی شکریہ ادا کرتے ہیں کہ انہوں نے بگھیو صاحب کو ملتان میں بلایا تو یہ سب باتیں ہمیں معلوم ہوئیں۔ البتہ یہ بات مجھے اچھی لگی کہ 250سے زائد مقالات پیش کئے جائیں گے مگر میں پریشان ہوں کہ یہ مقالے سنے گا کون؟ اس حوالے سے بھی بگھیو صاحب کوئی قابل قبول جدت لے کے آئیں۔
بگھیو صاحب کی شاندار تقریب پذیرائی میں سرائیکی وسیب کے زبردست شاعر شاکر شجاع آبادی جنہوں نے اپنی مجبوری اور معذوری کو تخلیقی کمال عطا کر دیا ہے وہ زبردست شاعر ہیں۔ اظہر مجوکہ نے بہت اچھا کیا کہ انہیں بھی مہمان اعزاز کا اعزاز عطا کیا اور مطالبہ کیا کہ اکادمی کو زندگی سے بھرے ہوئے اس شاعر کی زندگی کو آسان اور آسودہ بنانے کے لئے خاطر خواہ اہتمام کرنا چاہئے۔ ظہور دھریجہ ڈاکٹر شوکت مغل ڈاکٹر مقبول گیلانی نے چیئرمین اکادمی کو سرائیکی اجرک پیش کی۔ اس موقع پر نظریہ پاکستان فورم کے صدر ڈاکٹر حیدر رضا صدیقی اور پی ٹی وی ملتان کے جنرل منیجر خوبصورت تخلیقی شاعر ذوالفقار فرخ نے بھی خصوصی طور پر شرکت کی۔ ذوالفقار فرخ کو لاہور بہت یاد کرتا ہے۔
آخر میں یہ عرض ہے کہ بگھیو صاحب اکادمی پاکستان کے لاہور دفتر میں بھی تشریف لائیں یہاں برادرم محمد جمیل نے ادبی تقریبات کی دھوم مچائی ہوئی ہے۔ وہ لکھنے والوں میں بہت ہردلعزیز ہیں۔ لکھنے والوں اور لکھنے والیوں سے جمیل صاحب کے بہت مراسم ہیں وہ ہر کسی کے ساتھ رابطے میں رہتا ہے۔ میں نے جب بھی اسے اہل قلم خواتین و حضرات سے رابطے کے لئے کہا تو اس نے فوراً ان کا فون نمبر مجھے لکھوا دیا۔