تم اچھے لگتے ہو…!
اصل زندگی یہ نہیں ہے کہ آپ کتنے خوش ہیں اصل زندگی یہ ہے آپ سے کتنے لوگ خوش ہیں۔ محبت بہت اہم ہے مگر محبت کا اظہار زیادہ اہم ہے۔ میرا ایک بہت اچھا دوست کہنے لگا میں تمہارا کالم پڑھتا ہوں مگر اتوار کو ضرور پڑھتا ہوں کہ چھٹی کا دن ہوتا ہے اور کوئی کام کرنے کا نہیں ہوتا۔ مجھے یقین ہے کہ اتوار کے دن تو لوگ مجھ سے بہت خوش ہوتے ہوں گے کہ میں کچھ بھی نہیں کرتا۔ تم اکثر یہ شعر پڑھتے ہو …؎
مکتبِ عشق کا دستور نرالا دیکھا
اس کو چھٹی نہ ملی جس نے سبق یاد کیا
میں کبھی سبق یاد نہیں رکھتا۔ مگر میں مکتبِ عشق کا سٹوڈنٹ ضرور ہو۔ نالائق اور سست سٹوڈنٹ ہوں۔ پھر میری طرف دیکھا اور کہنے لگا مجھے تمہارا یہ جملہ پسند ہے ’’لوگ کاہل ہوتے ہیں۔ میں بحرالکاہل ہوں‘‘ ایک بڑے سمندر بحرالکاہل کے لئے یہ معافی تم نے عجب نکالے ہیں۔
کہتے ہیں چھٹی کا دن گھر والوں کے لئے ہوتا ہے اور یہ حدیث مبارک بھی تم سے میں نے سنی تھی میری اصل ملاقات تمہارے ساتھ اتوار کو کبھی کبھی ہوتی ہے۔ آقا و مولا کریم رحمت اللعالمین حضرت محمدﷺ نے فرمایا ’’تم میں سے وہ اچھا ہے جو اپنے گھر والوں کے لئے اچھا ہو ‘‘ یہ بھی اچھائی ہے کہ ہم دوسروں اور دوستوں کو اچھا کہیں۔ تم بہت اچھے ہو، تم اچھے لگتے ہو، مجھے اچھے لگتے ہو۔ ایک دوسرے کو اچھا کہنے کی روایت عام ہو جائے تو خدا کی قسم یہ دنیا اچھے لوگوں سے بھر جائے۔
ایک جنازہ جا رہا تھا۔ رسول کریم حضرت محمدﷺ اپنے صحابہؓ کے ساتھ کھڑے تھے۔ کئی لوگوں نے کہا یہ اچھا آدمی تھا۔ لوگ اس سے بڑے خوش تھے۔ حضورؐ نے فرمایا کہ جنت اس پر فرض ہو گئی۔ پوچھا گیا تو آپؐ نے فرمایا: جس آدمی سے لوگ خوش ہیں لوگوں کا اللہ بھی اس سے خوش ہے۔ تو یہ شخص سیدھا جنت میں جائے گا۔ لوگوں اور دوسروں کو اچھا سمجھنے اور کہنے والوں کے لئے یہ دنیا بھی جنت ہے اور حضور کریم حضرت محمد رسول اللہﷺ آخرت میں جنت کا وعدہ لے کے آئے تھے اور اس دنیا کو بھی جنت بنانے آئے تھے۔ ہم میں سے کئی لوگ اس دنیا کو دوزخ بنانے پر تلے ہوئے ہیں۔ حضور کریمؐ نے اس دنیا کو جنت بنا کے دکھا دیا۔ اب بھی آپ جہاں موجود ہیں روضہ اطہر جنت کا بہترین ٹکڑا ہے۔ روضے کے ساتھ ریاض الجنت ہے جہاں ہم نوافل ادا کرتے ہیں۔ 24گھنٹے میں ہر وقت وہاں کوئی نہ کوئی نفل ادا کر رہے ہوتے ہیں جیسے خانہ کعبہ میں ہر وقت طواف ہوتا رہتا ہے۔
حقوق اللہ کا تعلق اللہ کے ساتھ ہے۔ اللہ معاف کرنے والا ہے۔ اصل حقوق تو حقوق العباد ہیں۔ زندگی گزارنے کے اسلوب سے لوگ محبوب بنتے ہیں اور معتوب بھی بنتے ہیں۔ ایک دوسرے کے حقوق تو اتنے اہم ہیں کہ معاف کرنے والا اللہ بھی معاف نہیں کرے گا جب ہم ایک دوسرے کو معاف نہ کر دیں۔ ایک دوسرے کے حقوق اچھی طرح پورے ہوں گے تو زندگی خوبصورت زندگی ہو گی۔ اگر یہ ہو جائے تو دنیا جنت بن جائے گی۔
کہتے ہیں وہی محبوب آدمی ہے جس سے آدمی ایک بار ملے تو پھر اس کے ساتھ بار بار ملنے کو جی چاہے۔ میں بڑی دیر سوچتا رہا کہ ہمارے حکمرانوں میں کوئی ایسا آدمی ہے؟ چند ایک ہوں گے مگر ان کا نام یہاں نہیں لے سکتا۔ چیف جسٹس پاکستان انور ظہیر جمالی کبھی کبھی بہت بامعنی اور معنی خیز باتیں کرتے ہیں۔ ان پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔ سیاستدانوں اور حکمرانوں کو بھی غور کرنا چاہئے۔ میرے آج کے کالم میں کی گئی بات کے پس منظر میں جسٹس صاحب کا یہ جملہ دیکھیں۔
ہمیں ایسی قیادت نہیں ملی جو لوگوں کو قوم بنائے۔ ہم کب بنیں گے قوم؟ تو پھر ہم کیا ہیں؟ ججوں کے ریمارکس آج کل بہت موضوع بحث ہیں۔ کہتے ہیں جج کے فیصلے بولتے ہیں وہ خود نہیں بولتے۔ انہیں بولنے دیں۔ ہمارے سیاستدان حکمران اور دانشور بھی اس طرح نہیں بولتے۔ کوئی تو بولے اور دلوں کے دروازے کھولے۔
کوئی بتائے کہ ہمارے آرمی چیف سپہ سالار اعلیٰ جنرل راحیل شریف کم بولتے ہیں مگر ان کے کام بولتے ہیں۔ ان کی محبوبیت میں کمی نہیں آئی مگر بڑھی بھی نہیں ہے۔ لوگ منتظر ہیں اور مضطرب ہیں؟ اورنگ زیب عباسی کبھی کبھی کسی کالم پر خوشی کا اظہار کرتے ہیں کبھی غصہ بھی کرتے ہیں۔ ان سے ملاقات نہیں ہوئی مگر لگتا ہے کہ ملاقات ہے؟ جب میں وزیر داخلہ چودھری نثار کی دلیری خودداری اور حب الوطنی پر لکھتا ہوں وہ خوش ہوتے ہیں۔ اس موضوع پر جو بات کرتے ہیں کوئی دوسرا نہیں کرتا مجھے اچھا لگتا ہے۔ کبھی کبھی میں کسی وزیر شذیر پر تنقید کرتا ہوں۔ بالخصوص خواجہ آصف اور اسحاق ڈار کے لئے مخالفانہ کالم لکھتا ہوں تو اورنگ زیب عباسی بہت خوش ہوتے ہیں۔ چودھری نثار کے لئے پاکستان کے سب لوگ خوش ہوتے ہیں تو ہمیں بھی موقع ملتا ہے کہ وزیر کے لئے کچھ اچھا لکھ سکیں کوئی تو نواز شریف کے قریب ہونے کے باوجود اتنی جرات اور حکمت سے بات کرتا ہے۔ انہیں اچھائی اور برائی سے آگاہ کرتا ہے۔ ’’راضی برضا‘‘ تو سب رہتے ہیں کوئی تو ناراض بھی ہو سکتا ہے اور ناراضی کا اظہار بھی کر سکتا ہے۔ ہم چودھری نثار کے شکرگزار ہیں۔
اورنگ زیب عباسی نے بتایا کہ ان کے ایک عزیز عابد عباسی ہیں جن کے معاملات سے خوشی ہوتی ہے۔ وہ مسلم لیگ ن کے آدمی ہیں۔ بلدیاتی انتخابات میں تین بار ناظم منتخب ہوئے ہیں۔ صدر جنرل مشرف کے زمانے میں بھی ثابت قدم رہے۔ وہ چاہتے ہیں کہ ڈپٹی میئر بن کے کوئی خدمت کر جائیں۔ اپنے ایسے آدمیوں کے لئے مسلم لیگ (ن) خیال رکھے۔
نجانے کیوں آج کالم ختم کرنے کو دل نہیں چاہ رہا۔ چلئے آخر میں ایک بہت خوبصورت مزاج کے تخلیقی صفات والے بہت گہرے شاعر اور دوست اعجاز ثاقب کا شعر سنئے…؎
تیر بھی تھے ترکش میں تم بھی تھے نشانے پر
دیکھ لو مگر ہم نے توڑ دی کماں اپنی