”صدر یونین کی گرفتاری“ کئی بھارتی شہروں میں طلباءکے مظاہرے‘ ہندو غنڈوں کا تشدد
نئی دہلی (نیوز ڈیسک+ ایجنسیاں) کشمیری حریت پسند افضل گورو کی برسی کی تقریب منعقد کرانے پر نئی دہلی میں جواہر لعل نہرو یونیورسٹی کے گرفتار صدر طلبہ یونین کنہیا کمار کا عدالت نے گزشتہ روز مزید 2 روزہ ریمانڈ پولیس کو دے دیا کنہیا کمار کو غداری کے الزامات کا سامنا ہے۔ انہیں پولیس کے سخت حفاظتی انتظامات میں پٹیالہ کورٹ ہاﺅس لایا گیا‘ جواہر لعل یونیورسٹی اور دیگر یونیورسٹیوں کے سینکڑوں طلبہ بھی کنہیا کمار سے اظہار یکجہتی کیلئے احاطہ کچہری عدالت میں اور باہر موجود تھے اس موقع پر حکمران جماعت بی جے پی اور آر ایس ایس کے غنڈوں نے جو وکلاءکے گاﺅن پہنے ہوئے تھے پاکستانی ایجنٹ قرار دے کر کئی طلبہ کو تشدد کا نشانہ بنایا صحافیوں کو کوریج سے روکا اور دھکے دیکر کمرہ عدالت سے نکال دیا ان کے کیمرے اور فون چھیننے کی کوشش کی۔ بی جے پی کے رکن پارلیمنٹ اوپی شرما نے عدالت کے باہر ایک طالب علم کو پاکستانی ایجنٹ قرار دے کر پیٹ ڈالا، اس دھینگا مشتی کے دوران کئی طلبہ اور صحافی زخمی ہو گئے طلبہ نے کئی جگہ بیرئی گرا دئیے۔ جبکہ پولیس تماشہ دیکھتی رہی، طلبا نے واضح کیا کہ وہ کنہیا کمار کی رہائی تک کلاسز میں نہیں جائیں گے۔ یونیورسٹی میں اور پٹیالہ کورٹ ہا¶س کے باہر طلبا اور پولیس میں تصادم ہوتے ہوتے رہ گیا۔ دوسری طرف جواہر لعل یونیورسٹی میں پانچویں روز بھی طلبہ نے مکمل ہڑتال جاری رکھی جبکہ اساتذہ کی یونین نے بھی طلبہ کے احتجاج کی حمایت کا اعلان کردیا۔ اکیڈمک سٹاف یونین جے این یو کے صدر اجے پٹنائیک نے بی بی سی سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ہم طلباءکی ہڑتال کے دوران کلاسز نہیں لیں گے، 1977ءکی ایمرجنسی کے بعد پہلی بار ہوا ہے کہ سٹوڈنٹس یونین کے منتخب صدر کو پولیس نے گرفتار کیا، یہ سراسر غلط ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس طرح کے ہتھکنڈوں سے آزادی اظہار کو کچلا یا طلبہ اور اساتذہ کو دبایا نہیں جا سکتا۔ آل انڈیا سٹوڈنٹس فیڈریشن کی رہنما اور طلبہ یونین کی نائب صدر راحیلہ پروین نے کہا کہ مودی سرکار طلبہ کی زبان بندی کرنا چاہتی ہے۔ یہ ہماری سوچ پر پہرے لگانا چاہتی ہے۔ دریں اثناءصدر یونین کنہیا کمار سے اظہار یکجہتی کے لئے نئی دہلی کی دیگر یونیورسٹیوں اور دیگر شہروں میں بھی یونیورسٹیز کے ہزاروں طلبہ وطالبات نے مظاہرے کئے کولکتہ میں احتجاجی طلبہ نے وزیراعظم مودی کے پتلے جلائے اڑیسہ میں بھی احتجاج ہوا اور انسانی ہاتھوں کی زنجیر بنائی جواہر لعل یونیورسٹی کے تنازع سے مودی سرکاری مشکل سیاسی صورتحال میں پھنس گئی طلبہ کا احتجاج بڑھتا دیکھ کر وزیراعظم نریندر مودی نے گزشتہ روز اپنے قریبی ساتھیوں صدر بی جے پی امیت شاہ‘ وزیرداخلہ راجناتھ سنگھ، وزیر خزانہ ارون جیٹلی، وزیر خارجہ سشما سوراج سے صلاح و مشورے کئے اجلاس میں فیصلہ کیا گیا ملک کے خلاف سرگرمیوں میں ملوث عناصر سے سختی سے نمٹا جائے گا، ادھر حافظ سعید کے جعلی ٹویٹر ہینڈل پر بغیر تحقیق بیان داغنے پر خفت کا سامنا اٹھانے پر بھارتی وزیر داخلہ راجناتھ سنگھ نے اپنا وہ ٹویٹ ختم کردیا جس میں انہوں نے کہا تھا کہ جواہر لعل یونیورسٹی میں طلبہ کے احتجاج کو حافظ سعید کی حمایت حاصل ہے پیر کو اپنی خفت مٹانے کی کوشش میں راجناتھ سنگھ نے بیان دیا کہ بھارت مخالف عناصر کو برداشت نہیں کریں گے اور بے گناہوں کو کچھ نہیں کہا جائے گا۔ دوسری طرف جواہر لعل یونیورسٹی کے طالب علموں پر تشدد کے حوالے سے بی جے پی کا رکن پارلیمنٹ او پی شرما صحافیوں کے پوچھنے پر مکر گیا اور کہا کہ جس نوجوان کو انہوں نے پکڑا وہ پاکستان زندہ باد کے نعرے لگا رہا تھا میں نے اسے ایسا کرنے سے روکا ضرور مگر مارا نہیں۔
چنائے (نوائے وقت رپورٹ) نریندر مودی سرکار آنے کے بعد بھارت میں بڑھتی عدم برداشت اور ہندو انتہا پسندی کے خلاف اعلیٰ عدلیہ کے جج بھی بول پڑے۔ شہر چنائی میں مدراس ہائی کورٹ کے جج جسٹس کارنن نے کہا ہے کہ وہ بھارت میں پیدا ہونے پر شرمندہ ہیں۔ انہوں نے کہا کہ میں دلت ہوں اس لئے مجھے نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ واضح رہے کہ جسٹس کارنن کا بھارتی سپریم کورٹ نے مدراس ہائی کورٹ سے تبادلہ کر دیا تھا۔ انہوں نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ کسی ایسے ملک جانا چاہتا ہوں جہاں ذات پات کا نظام نہ ہو۔
مدراس ہائیکورٹ