• news

فرقہ واریت کی بنیادپر قتل دہشتگردی میں شمار ہوگا: چیف جسٹس انو ر ظہیر جمالی

اسلام آباد (آن لائن) سپریم کورٹ میں قتل کے مقدمات میں انسداد دہشتگردی کی دفعات عائد کرنے سے متعلق درخواستوں کی سماعت کے دوران تین درخواستیں خارج کر دیں۔جبکہ چیف جسٹس انورظہیرجمالی نے کہاہے کہ فرقہ واریت کی بنیاد پر ایک قتل بھی دہشتگردی میں شمار ہوگا،کسی کی اگر ذاتی دشمنی یا عناد ہے تو یہ کیسے کہہ سکتے ہیں کہ اْس پر دہشت گردی کی دفعات کا اطلاق ہوتا ہے۔جبکہ جسٹس میاں ثاقب نثار نے کہاہے کہ ذاتی دشمنی میں کیا گیا ارتکاب جرم دہشتگردی نہیں،جب تک عام عوام متاثر نہ ہوں، دہشتگردی کی دفعات نہیں لگ سکتیں،انسداد دہشتگردی ایکٹ سے متعلق قلم اٹھاتے وقت جج کو سوچنا ہوگا، اگر ذاتی عناد نہیں مگر ملزم کا مقصد دہشت پھیلانا ہے تو یہ دہشت گردی کے زمرے میں آتا ہے۔جب ملزم اعتراف کر لے کہ اْس نے قتل ذاتی عناد کے باعث کیا تو یہ مقدمہ ٹرائل کورٹ میں چلے گا انسداد دہشت گردی کی عدالت میں نہیں۔ ذاتی مفاد کے قتل میں انسداد دہشتگردی عدالت کا اختیار نہیں کہ وہ کیس سْنے۔انھوں نے یہ ریمارکس پیرکے روز دیئے جبکہ چیف جسٹس انور ظہیرجمالی کی سربراہی میں پانچ رکنی لارجر بنچ نے مقدمے کی سماعت کی ملزم طارق حاکم کی طرف سے اعتزاز احسن وکیل پیش ہوئے اور انھوں نے مؤقف اختیار کیا کہ کسی کو ٹارگٹ کرکے قتل کرنا دہشتگردی نہیں،قتل کی ہر واردات سے خوف و ہراس پھیلتا ہے، دہشتگردی کی عدالتوں سے ذاتی دشمنی کے مقدمات کا بوجھ ختم کیا جائے،طالبان طرز کی کارروائیاں دہشتگردی کے زمرے میں آتی ہیں،جس پر سپریم کورٹ نے امیدوار صوبائی اسمبلی سمیت چار افراد کے قتل کا مقدمہ انسداد دہشت گردی کی عدالت بھجوا دیا اور ہدایت کی کہ انسداد دہشتگردی کے عدالت جلدی کی بنیادوں پر کیس نپٹائے۔ لاہور ہائی کورٹ نے مقدمہ ٹرائل کورٹ میں چلانے کا حکم دیا تھا سپریم کورٹ نے ہائی کورٹ کا فیصلہ کالعدم قرار دے دیا۔

ای پیپر-دی نیشن