اداروں کو قومیانے‘ بیچنے کیخلاف ہیں‘ حکمران بندر بانٹ کا خیال چھوڑ دیں: سراج الحق
لاہور (خصوصی نامہ نگار) جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق نے کہا ہے کہ ہم نجی اداروں کو قومیانے اور قومی اداروں کی نجکاری دونوں کے خلاف ہیں، حکومت کو نہ تو کسی فرد کی جائیداد کو قومی ملکیت میں لینے اور نہ ہی قومی اثاثوں کو کسی کے حوالے کرنے کا اختیار ہے، ماضی کے حکمرانوں نے جب نجی ملکیتوںکو سرکاری تحویل میں لیا تو ہم نے اس غیر آئینی اور غیر اخلاقی اقدام کی سخت مخالفت کی اور اس پر بھرپور احتجاج کیا۔ اسی طرح ہم قومی املاک اور اداروں کو اونے پونے من پسند سرمایہ داروں کے حوالے کرنے کے بھی خلاف ہیں۔ حکومت آئی ایم ایف کو سود کی قسط ادا کرنے کیلئے منافع بخش اداروں کو فروخت کرنے پر تلی ہے۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے منصورہ میں نیشنل لیبر فیڈریشن کی مجلس عاملہ کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ اس موقع پر صدر نیشنل لیبر فیڈریشن رانا محمود علی اور سیکرٹری جنرل حافظ محمد سلمان بٹ بھی موجود تھے۔ سراج الحق نے کہا کہ حکمران منافع بخش اداروں کو بیمار یونٹس کی لسٹ میں شامل کرکے انہیں اپنے چہیتوں کے حوالے کرنے کیلئے قوم کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کی کوشش کررہے ہیں۔ وہ قومی اداروں کی بندر بانٹ کا ارادہ ترک کردیں، پارلیمنٹ کو اعتماد میں لئے بغیر ہونے والی نجکاری کو سینہ زوری کے علاوہ کوئی نام نہیں دیا جاسکتا۔ نجکاری میں مزدوروں اور ان کی نمائندوں تنظیموں کو اعتماد میںنہ لینا غیر شفافیت کا ثبوت ہے۔ انہوں نے کہا کہ انتظامی مسائل کو نجکاری کی بنیاد بنانا سراسر ظلم ہے۔ پی آئی اے اور سٹیل ملز جیسے بڑے اداروں کو کوڑیوں کے بھائو سرمایہ داروں کے حوالے کرنے سے قومی خزانے کو اربوں روپے کا نقصان ہوگا جس کی ہم کسی بھی صورت اجازت نہیں دے سکتے ۔انہوں نے مزدوروں اور عوام سے اپیل کی کہ وہ ملک و قوم کو ناقابل تلافی نقصان سے بچانے کیلئے جماعت اسلامی کا ساتھ دیں اور حکمرانوں کو اس قومی نقصان سے باز رکھنے کیلئے ایک بڑی تحریک کیلئے کمر کس لیں ۔انہوں نے کہا کہ اگر حکمران واقعی ملک و قوم کے ساتھ مخلص ہیں تو ریلوے کی طرح ان اداروں کو بھی چلانے کی پالیسی بنائیں ۔ ریلوے بہتر انتظام و انصرام کے تحت صرف دوسال کے اندر نقصان سے نکل سکتا ہے تو پی آئی اے اور سٹیل ملز کو بھی منافع بخش ادارے بنایا جاسکتا ہے۔ دریں اثناء سراج الحق نے وزیر اعلیٰ خیبر پی کے پرویز خٹک کے نام ایک خط میں مطالبہ کیا ہے کہ صوبے میں طلباء یونین کے انتخابات کروائے جائیں۔ خط میں کہا گیاہے کہ سینٹ میں قومی سیاسی قیادت کا اتفاق ہے کہ طلباء کو یونین کا حق دیا جائے۔ انہوں نے کہاکہ شدت پسندی و انتہا پسندانہ سوچ کے خاتمے کیلئے بہتر رستہ ہے کہ طلباء اپنے نمائندے خود منتخب کریں۔