• news
  • image

نوجوان نسل کو خوف و ہراس سے نکالئے!!!

میرے ایک عزیز دوست کی دو بیٹیاں وقار النساءگرلز کالج راولپنڈی میں پڑھتی ہیں۔ گزشتہ دنوں دہشتگردی کی افواہ پر کالج میں جو اچانک بدنظمی اور بھگدڑ ہوئی اس پر وہ انتہائی دل برداشتہ اور خوف زدہ ہیں۔ سہمی سہمی‘ چپ چپ اور کھانا پینا تک چھوڑ گئی ہیں۔ میں کسی کام سے اس دوست کے گھر گیا تو دیکھا کہ سارے گھر میں سناٹا ہے۔ والدین سمیت چھوٹے بڑے سب انجانے خوف کا شکار ہیں۔ میرے دوست نے دونوں بچیوں سے ملوایا جو میری بیٹیوں جیسی ہیں۔ میں انہیں پیار سے پاس بٹھا کر باتیں کرتا رہا مگر وہ خاصی حد تک گم سم رہیں۔ مجھے احساس ہوا دہشت گردی کے واقعات اپنی جگہ بہت بڑے سانحات ہیں لیکن اس حوالے سے انجانے خوف میں مبتلا لوگ اس سے بھی بڑی اذیت سے دوچار ہوتے ہیں۔ خود میرا عزیز دوست ان بچیوں کا باپ مجھے ازحد خوفزدہ اور اذیت ناک تشویش میں غلطاں لگا۔ میں اس پورے کنبے کے درمیاں بیٹھا بڑے حوصلے اور اعتماد کے ساتھ انہیں سمجھاتا رہا مگر وہ پھر بھی گم سم رہے۔ انجانے خوف میں مبتلا اس گھرانے کے ہوشربا سناٹے نے مجھے بھی اندر سے کھوکھلا کر دیا۔ امید افزائی کیلئے میرے پاس دلائل ختم ہو گئے‘ سمجھانے کی قوت و سکت مفقود ہوئی اور میں خود بھی خاموش ہو کر گھر کے سناٹے میں ان کا ساتھ دینے لگا۔ مجھے محسوس ہوا کہ یہ لوگ آجکل رات کو خواب بھی ڈراونے ہی دیکھتے ہوں گے‘ بقول ظفر اقبال ....

شیر آ کے چیرپھاڑ گیا مجھ کو خواب میں
پل بھر کو میری آنکھ لگی تھی مچان پر
مجھے یاد آیا کسی دانا نے کہا تھا بستیاں گھروں کے مسمار ہونے سے برباد نہیں ہوتیں بلکہ اس وقت اجڑتی ہیں جب خوف و ہراس ان میں ڈیرے ڈال لیتا ہے۔ پھر یک لخت سورہ قریش کی چکا چوند روشنی نے میری آنکھیں کھول دیں جس میں خوف اور امن کو متضاد قرار دیتے ہوئے خوف کی جگہ امن کو اللہ کی رحمت قرار دیا گیا۔ مجھے یاد آیا پاکستان کسی وقت امن کا گہوارہ تھا‘ دہشت گردی نے سارا خوف و ہراس کھینچ تان کر یہاں اکٹھا کر دیا‘ جو یقیناً اللہ کی رحمت سے دور ہونے کا نتیجہ ہے۔ دہشتگردوں نے بے یقینی اور بداعتمادی کا ماحول پیدا کیا‘ افواہ سازوں نے سازش کے ذریعے اس فضا کو مزید گہرا کر دیا اور نتیجتاً ہر شخص خوف کے ماحول میں سانس لینے لگا۔ گزشتہ دنوں وقار النساءگرلز کالج راولپنڈی جیسا واقعہ کراچی میں بھی ہوا‘ جہاں کسی ٹیچر کی سرزنش پر ایک بچے نے زوردار پٹاخہ سکول کی چار دیواری میں پھوڑا اور بھگدڑ مچ گئی‘ سکول میں دوڑیں لگ گئیں‘ افواہ سازوں نے اپنا کام دکھایا اور دہشتگردی کے خوف نے لوگوں کی سانسیں تک روک لیں۔ بنظر عمیق دیکھیں تو یہ سب کیا ہے؟ یہ دہشتگردی نہیں بلکہ دہشت گردی کا خوف ہے۔ ایک انجانا سا ڈر ہے جو ہر شخص اپنے باطن میں پال رہا ہے اور جو ذرا سی آہٹ پر بھی زوردار بم کی طرح پھٹ پڑتا ہے۔ لگتا ہے دہشتگرد حتمی ہدف کے طورپر یہی ماحول پیدا کرنا چاہتے تھے‘ جس میں وہ کلی طورپر تو نہیں البتہ ایک حد تک کامیاب ہوئے ہیں۔ اس تخریبی ہدف کیلئے انہوں نے جو حکمت عملی وضع کی ہے وہ بہت اذیت ناک اور ہوش اڑا دینے والی ہے۔ ہمارے نونہال‘ مستقبل کے معمار اور نوجوان اب ان کا ٹارگٹ ہیں۔ اے پی ایس پشاور پر حملہ انہوں نے ٹیسٹ کیس کے طورپر کیا تھا۔ اسکے بعد کئی واقعات ہوئے‘ بین الاقوامی یونیورسٹی اسلام آباد کے گرلز کیمپس پر حملہ بھی ہوا۔ قریب ترین واقعہ باچا خان یونیورسٹی چارسدہ پر حملہ ہے‘ جس نے اچھے اچھوں کے ہوش اڑا دئیے۔ سوال صرف ایک ہے ”ضرب عضب“ کے ذریعے فوج اور سیکورٹی اداروں نے دہشتگردی پر خاصا کنٹرول حاصل کر لیا ہے‘ لیکن نفسیاتی اور ہیجانی سطح پر دہشتگردوں کی اعصاب شکن کارروائیاں جاری ہیں‘ انہیں کون روکے گا؟ اور یہ سوال بھی اپنی جگہ اہم ہے کہ ان سخت ترین نفسیاتی حربوں کو روکنے کیلئے کیا حکمت عملی وضع کی گئی ہے؟ متذکرہ دونوں سوالوں پر غور کریں تو یہ بات روزروشن کی طرح واضح ہوتی ہے کہ ہم اس ضمن میں خاصی حد تک خواب خرگوش کے مزے لے رہے ہیں۔ ہمارے مستقبل کے معمار اور نوجوان نسل سہمی ہوئی ہے‘ ڈر اور خوف نے انکے اعصاب کو جکڑ لیا ہے‘ والدین‘ اساتذہ اور تعلیمی اداروں کی انتظامیہ اپنی جگہ تشویش میں مبتلا ہے‘ لیکن ارباب اقتدار‘ منصوبہ ساز ادارے اور تعلیمی نظام کو چلانے والے اس حوالے سے کاہلی اور سستی کا شکار ہیں‘ وہ اس صورتحالات کے تدارک کیلئے کچھ بھی نہیں کر رہے۔ نفسیاتی سطح پر دیکھیں تو نئی نسل میں اس خوف کی کیفیت خاصی تشویشناک حد تک موجود ہے‘ جس سے نوجوان نسل کے اخلاق و کردار اور طرز عمل پر پیچیدہ اور گھمبیر نفسیاتی اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔ سیدھی سی بات ہے کہ اگر ہماری نوجوان پود (خاکم بدہن) کلی طورپر خوف و ہراس کی کیفیت کے زیر اثر نفسیاتی طورپر گنجلک نفسیاتی بیماریوں کا شکار ہو گئی‘ تو انکے اندر سے موروثی خوبیاں بہادری‘ بردباری‘ صبر‘ برداشت اور دلیری و آہن پیکری ختم ہو جائیں گی۔ اس صورتحالات سے بچنے کیلئے ملک بھر کے ماہرین نفسیات‘ اساتذہ‘ والدین اور حکومتی و پرائیویٹ اداروں کے ذمہ داروں کو سرجوڑ کر بیٹھنے کی ضرورت ہے۔ حکومت کو اس ضمن میں پہل کرتے ہوئے باقاعدہ ایک ادارہ تشکیل دینا چاہئے جو دہشتگردوں کی اس گھمبیر سازش کے توڑ کیلئے مربوط حکمت عملی تیار کرے اور پھر طے شدہ سفارشات کی روشنی میں نوجوان نسل‘ والدین‘ اساتذہ اور تعلیمی اداروں کی انتظامیہ کو خوف و ہراس کی کیفیت سے نکال کر صحت مند اور توانا معاشرے کی تشکیل کی راہ پر لگایا جائے۔ ”ضرب عضب“ آپریشن کے فوائد کو منفیت کی جانب جانے سے روکنے کےلئے دہشت گردوں کے نیٹ ورک کی حکمت عملیوں پر پورا غور و خوض کیا جائے اور اس بات کا سراغ لگایا جائے کہ انکی منفی حکمت عملیوں کی اختراع میں کون کون سی پاکستان دشمن قوتیں اور ایجنسیاں کام کر رہی ہیں۔ اس مقصد کے حصول کےلئے فوج کے ماہرین کی خدمات اور سفارشات کو بھی مدنظر رکھا جائے۔ سب ذی شعور پاکستانیوں کو یاد رکھنا چاہئے کہ پاکستان کو بچانے کےلئے پہلی ترجیح کے طورپر اس ملک خداداد کی نوجوان نسل کیخلاف سازشوں کو خاک میں ملانا ضروری ہے۔ اس مساعی کے بغیر پاکستان کے استحکام کا ہدف پوری توانائی اور کامیابی کے ساتھ حاصل نہ ہو سکے گا۔ اقبالؒ‘ سرسیدؒ اور قائداعظمؒ کے فلسفہ حیات کو انکے باطن تک پہنچانے کیلئے ازسرنو نصاب پر نظرثانی کی ضرورت ہے۔ پاکستانی نوجوان کو عقاب‘ شاہین اور مرد مومن بنانا ہو گا‘ جو کسی بھی خوف و ہراس کو خاطر میں نہیں لاتا‘ موت سے نہیں ڈرتا‘ دشواری و مشکل میں اللہ پر بھروسہ رکھتا ہے‘ ایک اللہ کے سوا کسی کو سجدہ نہیں کرتا‘ پوری محنت اور مشقت کے بعد نتائج اللہ پر چھوڑ دیتا ہے‘ یہ تمام خوبیاں ہمارے اسلاف کے آفاقی نظریات میں موجود ہیں‘ جو نوجوان نسل کو مایوسی و خوف سے بچا سکتی ہیں۔ ان اوصاف کے زیر اثر ہی ایک پاکستانی نوجوان کو مثالی بنانے کا خواب اقبالؒ اور قائداعظمؒ نے دیکھا تھا۔ دہشتگردوں کی کوشش ہے کہ یہ خواب تعبیر نہ ہونے دیا جائے‘ لیکن مشیت ایزدی کو یہ منظور نہیں۔ ان شاءاللہ پاکستان کے مستقبل کا نوجوان قائدؒ اور اقبالؒ کے نظریات کا حامل ہو گا‘ یہی نوشتہءدیوار بھی ہے۔

ڈاکٹر زاہد حسن چغتائی

ڈاکٹر زاہد حسن چغتائی

epaper

ای پیپر-دی نیشن