وزیر اعلیٰ گلگت بلتستان حفیظ الرحمن سے ملاقات
نیشنل ڈیفنس یونیورسٹی کی سکیورٹی ورکشاپ 6 میں شرکت دوستوں کی فہرست میں ایک نیا اضافہ تھا۔ دس سال پیشتر کورس میٹ رئر ایڈ مرل نعمان بشیر بعد میں نیول چیف بن کر ریٹائرڈ ہوئے اس وقت میجر جنرل آصف یاسین ملک اور میجر جنرل محمد مصطفی خان بعد میں لیفٹیننٹ جنرل بنے۔ جنرل مصطفی بعد میں آئی ایس آئی میں ڈائریکٹر جنرل، افواج پاکستان میں چیف آف جنرل سٹاف اور کور کمانڈر منگلا کی حیثیت سے ریٹائر ہوئے۔ آصف یاسین ملک بھی بعد میں آئی ایس آئی میں ڈائریکٹر جنرل اور کور کمانڈر پشاور بنے، ریٹائرمنٹ کے بعد سیکرٹری دفاع کے عہدے پر بھی فائز رہے۔ ائر وائس مارشل شاہد لطیف ائر مارشل بنے اور ائر چیف بنتے بنتے رہ گئے۔ ممتاز صحافی ابصار عالم آجکل پیمرا کے چیئرمین ہیں جبکہ راﺅ خالد ایکسپریس اسلام آباد کے ریذیڈنٹ ایڈیٹر ہیں۔ انہیں دوستوں میں اس وقت گلگت بلتستان کے وزیر اعلیٰ حفیظ الرحمن بھی کورس میٹ تھے۔گزشتہ روز اسلام آباد میں ان کے دفتر ملاقات ہوئی۔ اس موقع پر آئی سی سی آئی اسلام نثار مرزا اور بابر چودھری کے علاوہ گلگت بلتستان سے پاکستان جم سٹون مینو فیکچرنگ ایسوسی (PGMA) جو کہ ایف پی سی سی آئی کی ممبر ہے روح رواں اور نائب صدر سیف الدین کے علاوہ گلگت سمال چیمبر آف کامرس کے نائب صدر قربان علی بھی موجود ہیں۔
حفیظ الرحمن گلگت چیمبر آف کامرس کے صدر کے علاوہ ایف پی سی سی آئی کی ایگزیکٹو کمیٹی کے رکن بھی رہ چکے ہیں۔ سیلف میڈ انسان ہیں اور انہوں نے اپنے صوبے کی سیاست میں اعلیٰ ترین مقام اپنی محنت، دیانتداری، خلوص، لگن اور قیادت سے وفاداری کے ذریعے حاصل کیا ہے۔ نیشنل ڈیفنس یونیورسٹی کے دوران حفیظ الرحمن صاحب بولتے کم اور سُنتے زیادہ تھے لیکن آج کی ملاقات میں انہوں نے دل کھول کر اپنے صوبے، پاکستان بھارت معاملات، علاقائی اور عالمی سیاست پر کُھل کر بات چیت کی ۔ اس سے اندازہ ہوا کہ حفیظ الرحمن قومی اور بین الاقوامی امور پر گہری دسترس رکھتے ہیں ہر معاملے پر انکی معلومات اور جانکاری قابل ستائش تھی۔پاکستان اور تاجکستان کے درمیان ہمسائیگی کو ختم کرنے کےلئے واخان کی پٹی ہے جو افغانستان کا حصہ ہے اور صرف 45 میل چوڑی ہے۔ ایک وقت تھا جب تاجکستان میں روس کی حکومت تھی اور برصغیر میں برٹش راج تھا تو شاید دونوں ممالک کے درمیان ہمسائیگی کو ختم کرنے کیلئے واخان کی پٹی افغانستان کی سرزمین پر قائم کی گئی تھی۔ حفیظ الرحمن نے بتایا کہ ایک دفعہ انہوں نے افغان حکومت کے ایک ذمہ دار عہدیدار کو واخان کی پٹی پاکستان کو لیز پر دینے اور اسکے بدلے خصوصی مراعات کی پیشکش کی تھی لیکن اس وقت افغان حکومت کے مطالبات ناقابل قبول تھے۔ حفیظ الرحمن کے خیال میں براہ راست ہمسائیگی کے بعد سڑک اور ریل کے نظام کی بدولت پاکستان کی وسط ایشیا تک رسائی انتہائی آسان ہونے کے ساتھ سفر کیلئے کم وقت درکار ہو گا۔ چھ دن کا سفر ایک دن میں مکمل ہو سکتا ہے۔ حفیظ الرحمن نے بتایا کہ اس وقت جو گلگت بلتستان میں چار بڑی سڑکوں پر کام ہو رہا ہے ان میں ایک سڑک مظفر آباد سے استور، دوسری گلگت اور چترال کے درمیان، تیسری ناران بابو سرتاپ اور گلگت کے درمیان ہے جبکہ چوتھی قراقرم ہائی وے کی ازسرنو بحالی اور عطا آباد جھیل سے سرنگ کے ذریعے سڑک کی بہتری کے بعد دس ہزار کنٹینر ماہانہ کی تجارت کا حجم حاصل کیا جا سکتا ہے۔حفیظ الرحمن کا خیال تھا کہ فوج اور سول حکومت کے اشتراک سے دہشتگردی کیخلاف مہم انتہائی کامیابی سے جاری ہے۔ اگر سول اور ملٹری ہم آہنگی اسی طرح جاری و ساری رہی تو یہ مہم یقیناً اپنے منطقی انجام تک پہنچے گی۔گلگت کی تجارتی اور صنعتی ترقی کیلئے انہوں نے بتایا کہ وہ ایک انڈسٹریل زون گلگت میں قائم کر رہے ہیں جس سے سرمایہ کاری کے ساتھ ساتھ عوام کو روزگار کے مواقع فراہم ہونگے۔ گلگت چیمبر آف کامرس کے کردار پر بھی انہوں نے تفصیل سے روشنی ڈالی اور اسے مو¿ثر اور فعال بنانے کےلئے اقدامات کی بات کی۔
حفیظ الرحمن کا خیال تھا کہ کراچی کے راستے تجارت اور چین سے سُست بارڈر کے درمیان تجارت مختلف ہے۔ سُست بارڈر سے تجارت منفی 6 ٹمپریچر والے علاقے کے ذریعے کی جاتی ہے لہٰذا سے ٹیکس اور محصولات میں مراعات دی جانی چاہئے۔ وزیر اعلیٰ کے خیال میں چین اور پاکستان کے درمیان سڑک کے راستے سیاحت کے فروغ کیلئے اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔ اس سے پورے علاقے میں معاشی بہتری آئیگی۔ انہوں نے کہا کہ دشمن قوتوں نے کراس بارڈر ٹورزام کو روکنے کیلئے کراس بارڈر دہشتگردی شروع کر دی ہے۔
حفیظ الرحمن پاکستان چین اقتصادی راہدای پر سیر حاصل بات کرتے رہے انکے خیال میں یہ علاقائی معاملات میں گیم چینجر کی حیثیت رکھتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ وہی بھارتی جو ایک وقت میں گلگت بلتستان کے نام سے نا واقف تھے آج پاکستان چین اقتصادی رہداری کی مخالفت میں گلگت بلتستان کو متنازعہ علاقہ قرار دے کر اس منصوبے کے راستے میں رکاوٹیں پیدا کر رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ بھارتی وزیراعظم نریندر مودی اس منصوبے کی مخالفت میں روزانہ بیان بازی کر رہے ہیں اور ہمیں اس کا مو¿ثر جواب دینا چاہئے۔
حفیظ الرحمن بہت خوبصورتی سے کھرے سچے پاکستان کی طرح گلگت بلتستان کے معاملات پر بات چیت کرتے رہے اور مجھے یہ شعر یاد آتا رہا ....
فطرت کے مقاصد کی کرتا ہے نگہبانی
یا بندہ صحرائی یا مردِ کوہستانی