حقوق نسواں اور غیرت کے نام پر قتل کا غیر اسلامی فعل
بدقسمتی سے ہمارے معاشرے میں عورت کو وہ اہمیت حاصل نہیں ہے جو مرد کوحاصل ہے۔ جہالت‘ ضد اور حماقت کو صرف عورت کے ساتھ وابستہ کیا جاتا ہے مگر مطالعہ قرآن پاک اور مطالعہ سیرت النبی تو اس سے متضاد صورتحال پیش کرتا ہے۔ پارہ 19 سورة النمل آیات 30 تا 44 کا مطالعہ جہاں سیاست و حکومت حضرت سلیمان علیہ السلام کا عکاس ہے وہاں ملکہ سبا (یمن کی حکمران خاتون) کی حکمت ‘ دانائی‘ حقیقت پسندی کو بھی ظاہر کرتا ہے۔ بطور خاص جو مکالمہ یمنی جزلز کے ساتھ ملکہ سبا کا ہے ”ترجمہ“ ”سنو ۔ جب فاتح بن کر بادشاہ ان دشمن ملک پر قابض ہو جاتے ہیں تو مفتوحہ ملک کے معزز ترین افراد (حکمرانوں) کو ذیل ترین افراد بنا دیتے ہیں اور ملک کو بھی تباہ و برباد کر دیتے ہیں“ حضرت سلیمان اور ملکہ سبا میں جو مکالمہ ہوتا ہے وہ بھی عورت کے دور اندیش اور حقیقت پسند ہونے کو ظاہر کرتا ہے۔
مدینہ میں یہودی جاگیردار کعب بن اشرف آپ کے خلاف بہت سازشیں کرتا تھا۔ دومسلمان نوجوان قباءکے ساتھ اس کے قلعہ نما گھر گئے۔ خوشبو کا تحفہ پیش کرنے کے لئے اسے باہر بلوایا۔ بلانے والوں کی آواز سن کر کعب بن اشرف کی بیوی نے اسے کہا ”مت جا¶‘ مجھے ان کی آواز سے خون کی بو آ رہی ہے“ چند منٹ میں نوجوانوں نے کعب کو قتل کر دیا۔ یہ واقعہ فہم و فراست عورت کی واضح دلیل ہے۔ تقویٰ کے معاملے میں مومن عورت کا تذکرہ مرد کے برابر اور ساتھ ساتھ قرآن پاک میں بیان ہوا ہے۔ کچھ فقہاءاور مجتہدین نے تو عورت کی حکمرانی کے جواز کو بھی پیش کیا ہے۔ ان کے اجتہادات دلچسپ استدلال پر مبنی ہیں۔ حضرت ام سلمیٰؓ آنحضرتﷺ کی وہ زوجہ ہیں جو صلح حدیبیہ میں آنحضرت کے ساتھ رفیق سفر تھیں۔ جب صلح حدیبیہ کی تحریر پر دستخط ہو چکے تو صحابہ کرامؓ نہایت غمزدہ اور افسردہ تھے۔ آپ نے احرام کھول دینے‘ سر کے بال کاٹ دینے اور قربانی کر دینے کا حکم صادر فرمایا مگر صحابہ کرامؓ اتنے افسردہ اور ملول و دل گرفتہ تھے کہ وہ تعمیل حکم کی طرف مائل نہ ہو سکے ۔ غم کی اس حالت میں حضرت ام سلمیٰؓ نے آنحضرت کو مشورہ دیا ”پہلے آپ خود احرام کھول دیں خود قربانی بھی کر دیں۔ آپ کو دیکھ کر خودبخود یہ سارے احرام کھول دیں گے اور قربانی ذبح کر دیں گے۔ اپنی زوجہ کے مشورے پر آپ نے فوراً عمل کیا تو صحابہ کرامؓ نے آپ کو یہ عمل کرتے دیکھ کر آپ کی فوراً اتباع کی۔ پارہ 26 سورہ الحجرات آیت 11 میں مسلمان مردوں اور عورتوں کوایک دوسرے کا تمسخر اڑانے اور سامان تضحیک بنانے سے منع فرمایا گیا ہے۔ آیت نمبر 12 میں ”بدظن“ ہونے سے منع فرمایا گیا ہے اور ”غیبت“ سے اجتناب کا حکم دیا گیا ہے۔ آیت 13 ترجمہ ”اے لوگو ہم نے آپ سب کو ایک مرد اور عورت سے پیدا کیا ہے‘ آپ کو قبائل اور نسلوں میں وابستہ کیا ہے۔ تم جان لو کہ تم میں سے اﷲ کے ہاں صرف وہی محترم ترین ہے جو متقی ترین ہے۔ اس کا مخاطب مومنین ومومنات یکساں ہیں۔ میاں بیوی میں اختلاف اور نفرت عموماً ایسی خبروں کی بدولت پیدا ہوتی ہے جو ”سازش“ ہوتی ہیں اور عمداً کسی مرد یا عورت کو اس کا شکار کیا جاتا ہے۔ اس لئے آیت نمبر 6 میں واضح طور پر حکم دیا گیا ہے کہ ”مسلمانو اگر کوئی غیر ثقہ آدمی (فاسق) آپ کے پاس کسی قوم (فرد) کے خلاف خبر لیکر آ جائے تو فوراً اس کی بات کو درست سمجھ کر جارحانہ پیش قدمی نہ کرو بلکہ اس خبر کی اچھی طرح چھان بین کر لو کہیں اس فاسق کی غلط اور سازشی کی خبر کی وجہ سے اس قوم (فرد) کے خلاف وہ کچھ نہ کر بیٹھو جس کے بعد تمہیں ندامت سے دوچار ہونا پڑے“ ” اسی لئے سازشی سرگوشی“ سے منع کیا گیا ہے۔ مسلمانوں کو گناہ کی طرف دعوت دینے اور دشمنی پھیلانے والی سرگرشیوں سے بھی منع کیا ہے۔ آیت نمبر 7 اور 8 اسی مفہوم کی ترجمان ہیں۔
ہمارے معاشرے میں عورت کے کردار پر جو شک کیا جاتا ہے اس کا تدارک پارہ 28 سورہ طلاق سے آغاز کی آیات میں موجود ہے۔ بیوی کو (بہن‘ بیٹی کو بھی) گھر سے (خاندان سے) بیدخل کرنے سے منع فرمایا گیا ہے۔ صرف ایک صورت میں ان سے لاتعلقی اپنائی جا سکتی ہے کہ انہوں نے فعل فحش کا عملاً اور سچ مچ ارتکاب کیا ہو۔ ایسی صورت میں اسے طلاق دیگر الگ کیا جا سکتا ہے مگر اسے غیرت کے نام پر قتل ہرگز ہرگز نہیں کیا جا سکتا۔ سب سے زیادہ اہتمام ”شہادت“ پر دیا گیا ہے۔ کسی فاسق اور شرارتی کی سازشی خبر اور مشکوک صورتحال کی بنیاد پر بیوی (بیٹی‘ بہن) کو ہرگز قتل نہیں کیاجا سکتا۔ مسلمان عورت پر کردار کے لئے تہمت لگانا جبکہ گواہ موجود نہ ہوں حد قذف نافذ کرنے کا حکم ہے۔ آنحضرت کی زوجہ حضرت عائشہؓ پر جو تہمت لگائی گئی وہ اصلاً تو منافقین کی سازش تھی۔ قابل غور بات یہ ہے کہ حضرت عائشہؓ پر کردار کے حوالے سے تہمت کے باوجود نہ تو آنحضرت نے آپؓ کو غصے اور غیرت میں آ کر قتل کیا نہ زدوکوب کیا نہ ہی گھر سے نکالا۔ حالانکہ صورتحال خود آنحضرت کے لئے تو بہت زیادہ پریشان کن تھی۔ واقعہ تہمت عائشہؓ مسلمان شوہر‘ باپ‘ بھائی کے لئے مکمل رہنمائی ہے کہ محض الزام کی بنیاد پر وہ اپنے خاندان کی عورت کوغیرت کے نام پر نہ تو قتل کر سکتا ہے‘ نہ گھر اور خاندان سے خارج یا عاق کر سکتا ہے۔ نہ معاشرے میں تنہا چھوڑنے کا عمل کر سکتا ہے۔ البتہ ایک نئی صورت اس سورہ کی آیات نمبر 6 تا 9 میں یہ بیان ہوئی ہے کہ سچ مچ بیوی یا خاوند اگر کردار کے حوالے سے الزام لگانے پر دو ٹوک آمادہ ہو جائیں مگر اس کے پاس چار گواہ بھی موجود نہ ہوں تو وہ دونوں میاں بیوی ایک دوسرے کے حوالے سے حلفیہ بیان دیکر خود کو سچا اور دوسرے کو جھوٹا کہیں گے اور اللہ تعالیٰ کی لعنت نازل ہونے کے لئے دعائیے کلمات کہہ دیں گے۔ یوں پانچویں بار حلفیہ بیان (لعان) کے بعد وہ الگ الگ ہو جائیں گے۔ یعنی اگر وہ میاں بیوی ہیں تو ان میں حلفیہ بیان (لعان) کی مشق کی بنیاد پر مستقل علیحدگی ازخود ہو جائے گی۔ سوچنے کی بات ہے کہ قرآن پاک میں سچ مچ کسی ایک فرد (میاں یا بیوی) کے عمل فحش کے ارتکاب کے باوجود اس کو غیرت اور غصے کے ساتھ قتل کرنے کی ہرگز اجازت نہیں دی گئی ہمارے معاشرہ میں عزت کے نام پر قتل کرنے سے پہلے قرآن پاک کی سورہ نور میں بیان شدہ واضح ہدایات اور خود آنحضرت کے حضرت عائشہؓ کے کردار پر سازشی منافقین کے تہمت لگانے کے باوجود صبر کرنے اور طلاق نہ دینے کا جو عمل ہوا یہ سارا نبوی عمل مسلمان معاشرے کے لئے راہ عمل ‘ جادہ منزل اور زاد راہ زندگی ہے کہ غیرت کے نام پر اور جوش میں آ کر ملزمہ عورت (بیوی۔ بہن۔بیٹی) کو ہرگز ہرگز قتل نہیں کیا جا سکتا اگر کوئی ایسا کرے گا تو اسلامی ریاست اس قاتل شوہر‘ باپ‘ بھائی کے خلاف قتل عمد کا مقدمہ چلا کر اسے قرار واقعی سزا دینے کی پابند ہو گی۔