دو کتابوں سے اچانک ملاقات
کتاب کو تنہائی کی بہترین ساتھی قرار دیا گیا ہے۔ مگر جب لمبا سفر بھی درپیش ہو تو کتاب محفل اور مجلس کا اثر رکھتی ہے۔ نہ وقت گزرنے کا پتہ چلتا ہے نہ سفر کٹنے کا۔ پچھلے دنوں واہ کینٹ سے عارف والہ واپسی پر ایک بک سٹال پر رکے۔ ایک کتاب کے چند ورق الٹے ہر صفحے نے چونکایا اسی مصنف کی ایک اور کتاب بھی ساتھ آگئی۔ واپس گھر پہنچا تو دونوں کتابیں ہضم ہو چکی تھیں مگر اچنبھے کا پہاڑ اب تک سامنے کھڑا ہے۔ ”فیس بک“ اور ”پاکستان پر کیا گزری“ دو کتابیں دو اچنبھے۔ دو کوہستان ایک نمک کا دوسرا گندھک کا۔ ”فیس بک“نے منٹو کی یاد تازہ کر دی۔ زبان کا چٹخارہ روزمرہ کے چھوٹے چھوٹے واقعات سے بننے والی ننھی منی کہانیاں، چہرے اور خاکے یادیں ہی یادیں طنز و مزاح میں لپٹی باتیں۔ کوہستان گندھک یعنی ”پاکستان پر کیا گزری“ نے تحریک پاکستان کے ابتدائی دنوں سے آج تک سیاسی آشوب نامے کی فلم بندی کے ذریعہ رنگ باندھ دیا۔ دونوں کتابیں ایک ہی نشست میں پڑھ ڈالیں۔ ادھر کتابیں ختم ہوئیں ادھر گھر آگیا۔ مصنف عرفان احمد خان کے بارے پتہ چلا کہ اردو ادب میں پی ایچ ڈی کی آخری منزل پر ہیں۔ موصوف ”پاکستان کیا گزری“ میں پاکستان کی موجودہ طبقاتی صورت حال پر تجزئیہ کرتے ہوئے رقم طراز ہیں.... ”اشرافیہ کے لوگ نسل در نسل دولت، شہرت، اثر و رسوخ اور اختیارات کے مالک ہوتے ہیں اسی وجہ سے یہ لوگ خود کو بلند مرتبہ خیال کرتے ہیں ان کے پاس زندگی کی تمام سہولیات موجود ہوتی ہیں جس سہولت کی کمی ہو یہ بیرون ملک عارضی یا مستقل طور پر منتقل ہو کر حاصل کر لیتے ہیں لوگ ان کے رہن سہن اور کھانے پینے کو حسرت سے دیکھتے ہیں اور انکی نقل کرنے کے تمنائی ہوتے ہیں یہ کلاس پاکستان سے پورا فائدہ حاصل کرتی ہے مگر پاکستان کو جوابی فائدہ تو درکنار نقصان کے علاوہ کچھ نہیں دیتی یہ طبقہ جاگیردار خاندانوں، بڑے کاروباری لوگوں، جرنیلوں، صنعت کاروں، ججوں، بڑے وکیلوں، سیاست دانوں، مذہبی لیڈروں، بیورو کریسی کے بڑے افسروں، پٹواریوں، آڑھتیوں، سفاروں، پراپرٹی ڈیلروں، بڑے ٹرانسپورٹروں، کارخانوں کے مالکوں پر مشتمل ہے ہر سال بکرے کا گوشت اور فوڈ انہی کا استحقاق ہے بڑھتی ہوئی مہنگائی، نا انصافی اور کرپشن کے سبب یہ طبقہ بہت پھل پھول رہا ہے بائیس خاندانوں سے بڑھ کر اب یہ بائیس ہزار خاندان بن چکے ہیں اس طبقے کا مذہب سے رابطہ واجبی اور دکھاوے کا ہوتا ہے یہ لوگ بقول واصف علی واصف زندگی فرعون کی گزارتے ہیں اور عاقبت موسی کی چاہتے ہیں۔
دوسرا طبقہ متوسط زیادہ تر نوکری پیشہ افراد پر مشتمل ہے اس میں چھوٹے اور متوسط کاروباری لوگ جو اشرافیہ کےلئے مڈل مین کا کام کرتے ہیں ان میں ڈاکٹر، انجینئر، سائنس دان، پروفیسر، اینکر، صحافی، وکیل، سرکاری ملازمین اور پرائیویٹ کمپنیوں میں کام کرنے والے افراد شامل ہوتے ہیں یہ لوگ ترقی کر کے اشرافیہ میں بھی چلے جاتے ہیں کیونکہ انہیں ایک طرف غربت کی کھائی دکھائی دیتی ہے دوسری طرف عروج کا کے ٹو اس لئے یہ لوگ سب سے زیادہ مذہبی ہوتے ہیں دعائیں، محافل میلاد اور نعت خوانی کی محفلوں کی رونق انہی کے دم قدم سے ہے۔ ناجائز آمدنی کا بوجھ انکے ضمیر پر بھاری گزرتا ہے۔ جسکے باعث اپر کلاس کی طرح بے حس نہیں ہوتے۔ خیر خیرات اور مذہبی معاملات میں خرچ کر کے انہیں روحانی خوشی حاصل ہوتی ہے۔ حکومت کو سب سے زیادہ ٹیکس بھی یہی طبقہ دیتا ہے قانون کا ڈر اور خدا ترسی بھی اسی طبقے میں زیادہ ہوتی ہے۔ مگر یہ طبقہ مسلسل کم ہو رہا ہے۔
”زیریں طبقہ یعنی نچلا طبقہ کلرکوں، مزارعوں، کاریگروں، غیر ہنر مندوں اور مزدوروں پر مشتمل ہوتا ہے۔ یہ لوگ اپنے معاشی مسائل کے باعث قومی مسائل کے بارے میں سوچنے کا تصور بھی نہیں کر سکتے۔ ان کی سوچ روزانہ کی بنیاد پر طے ہونے والے معاملات پر ہوتی ہے۔ دیہاڑی دار یا کم آمدنی ہونے کی وجہ سے یہ مسلسل بے یقینی کا شکار ہوتے ہیں ان میں بے کار بھی ہوتے ہیں اور جزوقتی کارکن بھی۔ اس طبقے کا ایک مسئلہ کثرت اولاد بھی ہے ان خاندانوں میں اکثر ایک فرد کماتا ہے۔ باقی آٹھ دس کھاتے ہیں یہ طبقہ محدود آمدن کے سبب مذہب سے بے بہرہ رہتا ہے اس طبقے میں توہم پرستی اور تعویز گنڈے کا رواج ہے کچھ لوگ مسلسل محنت اور تعلیم کی بنا پر متوسط طبقے میں جگہ بنا لیتے ہیں۔ ایک دوسرے سے جڑے ہونے کے سبب یہ طبقہ دھرتی سے جڑا ہوتا ہے۔ نچلے طبقے کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ اور سب سے زیادہ استحصال بھی اسی طبقے کا ہوتا ہے۔ پرچون فروش، مذہبی لیڈر، اور افسر شاہی تینوں شکاریوں کی نظر اسی طبقے پر مرکوز ہوتی ہے۔ بچوں کی کثیر تعداد کو یہ بھیڑ بکریوں کی طرح اپنا اثاثہ تصور کرتے ہیں“۔
اسی کتاب کے ابتدائی حصے میں کچھ تاریخی حقائق خصوصاً تشکیل پاکستان کے وقت نہرو کی چالاکی اور وائسرائے کی ملی بھگت سے پاکستان کو ہونے والے نقصانات کا احاطہ بڑے دلچسپ انداز میں کیا گیا ہے۔ دونوں کتابیں پڑھنے سے تعلق رکھتی ہیں اور افادے میں کئی گنا فربہ اور مہنگی کتب سے برتر ہونے میں حق بجانب ہیں۔