مردم شماری بروقت اور شفاف ہونی چاہیے‘ مشترکہ نگرانی کا نظام قائم کیا جائے : سندھ اے پی سی
کراچی (عبداللہ ظفر/ دی نیشن رپورٹ+ ایجنسیاں) پاکستان پیپلز پارٹی سندھ کے تحت کل جماعتی کانفرنس میں شامل سیاسی، مذہبی، قومیت پرست رہنماﺅں اور سول سوسائٹی کے نمائندوں نے ممکنہ تاخیر پر تحفظات کا اظہار کیا اور مطالبہ کیا ہے مردم شماری بروقت اور شفاف ہونی چاہئے۔ اے پی سی نے متفقہ طور پر وفاقی حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ مردم شماری کے عمل کی نگرانی صوبائی حکومتوں کے سپرد کی جائے۔ مردم شماری کی ابتدا سے اختتام تک مرحلہ کی مشترکہ نگرانی کا نظام قائم کرنے کے ساتھ ساتھ قومی شماریاتی ادارے کی گورننگ کونسل میں تمام صوبوں کو مساوی نمائندگی دی جائے۔ خانہ شماری کی مدت کم از کم 10 دن، مردم شماری کی کم از کم ایک ماہ مقرر کی جائے۔ فوج اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کو مردم شماری میں نگرانی اور سکیورٹی کی نگرانی دی جائے۔ وفاقی حکومت غیر ملکی تارکین وطن کو واپس ان کے ممالک میں بھیجنے اور ان کی رجسٹریشن کا مناسب انتظام کرے۔ قومی مردم شماری کی کی صوبائی حکومتوں کی مشاورت سے مربوط پالیسی کا تعین کیا جائے۔ حکومت مقامی سطح پر روزگار کے مواقع پیدا کرے۔ تمام غیر قانونی تارکین وطن کو جاری ہونے والے شناختی کارڈ منسوخ کئے جائیں۔ مردم شماری کی نگرانی کے لئے مانیٹرنگ کمیٹیاں قائم کی جائیں۔ یہ قراردادیں متفقہ طور پر تمام جماعتوں نے منظور کیں جس کے بعد وزیراعلیٰ سندھ قائم علی شاہ نے اعلان کیا کہ ان قراردادوں کی روشنی میں صوبائی حکومت مشترکہ مفادات کونسل کے آئندہ اجلاس میں مردم شماری کے حوالے سے موقف پیش کرے گی اور مطالبہ کرے گی کہ سندھ کو آبادی کے تناسب سے وسائل فراہم کئے جائیں۔ قرارداد میں کہا گیا ہے کہ کل جماعتی کانفرنس کے اجلاس میں سندھ کی سیاسی اور مذہبی جماعتیں اس امر پر سخت تشویش کا اظہار کرتی ہیں کہ یکے بعد دیگرے قومی مردم شماریوں میں مختلف طریقوں سے سندھ کی آبادی اس کی حقیقی آبادی سے کہیں کم دکھائی جاتی رہی ہے ۔ اجلاس میں سندھ میںدوسرے صوبوں سے مسلسل انتقال آبادی اور غیر ملکی غیرقانونی تارکین وطن کی کی سندھ میں مسلسل آمد پر اپنی گہری تشویش ظاہر کی گئی ہے جس سے سندھ کے وسائل اور سہولتوں پر دباﺅ بڑھتا جا رہا ہے۔ اجلاس میں مطالبہ کیا گیا کہ قومی مردم شماری میں دوسرے صوبوں سے انتقال آبادی کرنے والوں اورغیر ملکی غیر قانونی تارکین وطن کا درست شمار کیا جائے اور شمار کے مطابق سندھ کو اضافی وسائل مہیا کئے جائیں، غیرقانونی تارکین وطن کو ان کے اپنے ملکوں میں واپس بھیجنے کے انتظامات کئے جائیں، قانون سازی کرکے سندھ کے جائز حقوق کا تحفظ کیا جائے۔ مشترکہ مفادات کونسل وفاق اور صوبوں کی مشاورت سے قومی مردم شماری کا شفاف اور قابل اعتبار طریقہ کاراور پالیسی مرتب کرے۔ اجلاس اس امر کی مذمت کرتا ہے کہ قومی شماریاتی ادارے کی گورننگ کونسل کے ارکان میں ایک کے علاوہ باقی تمام ارکان کا تعلق صرف ایک اکثریتی صوبے سے ہے۔ سپریم کورٹ کے احکامات کے مطابق کنٹریکٹ پر بھرتی کئے جانے والے افراد کے بجائے مستقل سرکاری ملا زمین کو یہ ذمہ داریاں دی جائیں جو حکومتوں کو جواب دہ ہوں۔ نادرا کے بیس اعلی افسروں میں بھی ہر صوبے کی مساوی نمائندگی ہو۔ قانون کے مطابق خانہ شماری اور مردم شماری کی ذمہ داریاں صوبائی حکومتوں کے سویلین ملازمین کے ذریعے پوری کی جائیں ۔ فوج یا دیگر قانون نافذ کرنے والے اداروں کو صرف نگرانی اور سکیورٹی فراہم کرنے کی ذمہ داریاں دی جائیں۔ قانون نافذ کرنے والے ادارے قومی مردم شماری کے دوران یہ بات یقینی بنائیں کہ کوئی شخص یا گروہ دھونس ، دھمکی یا طاقت کا استعمال نہ کرسکے۔ سندھ کے ہر ضلع میں قومی مردم شماری کے سلسلے میں شکایاتی مراکز قائم کئے جائیں۔ شکایات اور ان کے ازالے کے سلسلے میں کی جانے والی کارروائی کا ریکارڈ آئین کے مطاق ہر شہری کی دسترس میں ہو۔ خانہ شماری اور مردم شماری کی تفصیلات کو ہر شہری کی دسترس میں رکھا جائے۔ مردم شماری کے انعقاد میں کسی قسم کی مزید تاخیر نہ کی جائے۔ اجلاس خانہ شماری کے لئے دی جانے والی تین دن کی مدت اور مردم شماری کے لئے دی جانے والی پندرہ دن کی مدت کو انتہائی ناکافی سمجھتا ہے۔ قراداد میں مطالبہ کیا گیا ہے کہ تمام عمل کی مشترکہ سکروٹنی کی جائے۔
سندھ/ اے پی سی
کراچی (سٹاف رپورٹر) وزیراعلیٰ سندھ قائم علی شاہ نے کہا ہے کہ مردم شماری صوبوں کے لئے زندگی اور موت کا معاملہ ہے اس لئے وفاق ہمارے تحفظات کو دور کرے، وزیر اعلیٰ ہاو¿س کراچی میں چھٹی مردم شماری کے حوالے سے پائے جانے والے تحفظات پر پیپلز پارٹی کے زیر اہتمام آل پارٹیز کانفرنس وزیر اعلیٰ ہاو¿س میں ہوئی۔ سید قائم علی شاہ کی سربراہی میں ہونے والی آل پارٹیز کانفرنس میں ایم کیو ایم، مسلم لیگ (ن)، فنکشنل لیگ، جئے سندھ قومی محاذ اور نظام مصطفی پارٹی سمیت 28 جماعتوں کے نمائندے شریک تھے، اے پی سی کے آغاز پر وزیر اعلیٰ سندھ نے کہا کہ ہم پاکستان کے وقار اور سالمیت پر یقین رکھتے ہیں، مردم شماری صوبوں کے حقوق سے منسلک ہے، یہ ہر صوبے کے لئے زندگی اور موت کا مسئلہ ہے، وفاق کی جانب سے مردم شماری کے لئے ہم سے پوچھا تک نہیں گیا، این ایف سی ایوارڈ میں بھی سندھ کے موقف کے غلط کمنٹس لکھے گئے، اس کے باوجود سندھ نے اپنا نمائندہ مقرر کیا، مردم شماری پر بنایا گیا کمیشن یکطرفہ ہے، اس میں تمام صوبوں کے نمائندے ہونے چاہئیں۔ ہم نے وفاق سے اپنے تحفظات کا اظہار کیا کہ مردم شماری کے طریقہ کار اور اس کے وقت پر مشاورت نہیں کی گئی، مردم شماری کے لئے بہتر انتظامات ہونے چاہئیں لیکن اس میں تاخیر نہیں ہونی چاہئے، فنکشنل لیگ کے رہنما مظفر حسین شاہ نے کہا کہ تمام صوبے مردم شماری کرانا چاہتے ہیں، نوکری کے کوٹے کا تعلق بھی مردم شماری سے ہے،خدشہ ہے مردم شماری سے سندھ کے مستقل لوگ اقلیت میں چلے جائیں گے۔ تین دن میں مردم شماری کرانے کے لئے کہا جا رہا ہے یہ ممکن نہیں، ہماری خواہش تھی کہ سندھ حکومت کاموقف ہمیں پہلے تحریری صورت میں مل جاتا، مسلم لیگ (ن) کے سینیٹر نہال ہاشمی نے کہا کہ آئین کے تحت ہر دس سال بعد مردم شماری ہونی چاہئے، مسلم لیگ (ن) کی پچھلی حکومت نے بھی مردم شماری کی ذمہ داری پوری کی تھی، سندھ ہم سب کا صوبہ ہے، صوبہ مضبوط ہوگا تو پاکستان مضبوط ہوگا، تمام صوبوں کو مردم شماری کےلیے ہوم ورک مکمل کرنا چاہئے، ہوم ورک مکمل کرنے کے لئے ہم دست تعاون بڑھاتے ہیں، وہ یقین دلاتے ہیں کہ وفاقی حکومت آئین سے ہٹ کر کچھ نہیں کرے گی، سندھ ترقی پسند پارٹی کے سربراہ ڈاکٹر قادر مگسی نے کہا کہ ملک میں ہمیشہ تخت لاہور والے حاکم رہے ۔ی،کہا جاتا ہے کہ دنیا کو ایٹم بم سے زیادہ آبادی میں اضافے سے خطرہ ہے، سندھ کو جو خطرات لاحق ہیں وہ پنجاب اور خیبر پی کے کو نہیں ہیں، وفاق کو مردم شماری سے نہ بھاگنے دینے کا وزیر اعلیٰ کا بیان کافی نہیں،جمیعت علمائے اسلام (ف) کے راشد سومرو نے کہا کہ مردم شماری پر چھوٹے صوبوں کو اعتماد میں لیا جانا چاہئے، مردم شماری سے متعلق جمعہ کے خطبات میں عوام کو آگاہ کیا جائے، مردم شماری پر سندھ کے مطالبات کی منظوری تک وفاق کے سامنے احتجاج جاری رکھا جائے۔ جماعت اسلامی کے اسد اللہ بھٹو نے کہا کہ پاکستان پیپلز پارٹی کے دور میں مردم شماری ہوجاتی تو بہتر ہوتا، مردم شماری کمیشن میں صوبوں کو اپنے نمایندے مقرر کرنے کا اختیار ہونا چاہئے۔ حکومت مردم شماری میں مدد کےلئے فوج کو بھی شامل کرے ، نادرا کے ڈیٹا بیس اور ووٹرز لسٹ کو ملایا جائے، ووٹر کو معلوم ہونا چاہئے کہ اس کے گھر اور اہل خانہ کا اندراج ہے یا نہیں،تحریک انصاف کے رہنما ڈاکٹر عارف علوی نے کہا کہ خدشہ ہے کہ مردم شماری میں سندھ کی آبادی کم نہ شمار کی جائے، مردم شماری میں شفافیت سے کام لیا جائے، مردم شماری میں گنتی درست ہوتو کسی کو اعتراض نہیں ہوگا، خانہ شماری کے لیے سیٹلائٹ تصاویر سے مدد لی جائے، وزیراعلیٰ قائم علی شاہ سندھ کا مقدمہ مشترکہ مفادات کونسل میں پیش کریں، ایم کیو ایم کے کنور نوید جمیل نے کہا کہ مردم شماری کے 4 مرحلے ہوتے ہیں، پہلا مرحلہ نقشے بنانے کا ہوتا ہے، دوسرا مرحلہ آبادی، تیسرا مرحلہ خانہ شماری کا ہوتا ہے، 2009ءمیں پیپلز پارٹی حکومت کے پاس مردم شماری کرانے کا اختیار تھا، 2009ءمیں مردم شماری کے چار مرحلے مکمل ہو گئے تھے، 2011 میں خانہ شماری بھی ہو گئی تھی، سندھ حکومت مطالبہ کرے۔ پی پی دور میں نامکمل مردم شماری مکمل کرائی جائے، نئی مردم شماری کے بجائے پرانی کو مکمل کیا جائے تو خرچ کم ہوگا۔ آئین کے تحت کوئی بھی پاکستانی شہری کسی بھی صوبے میں آباد ہو سکتا ہے، یہاں مقیم سب لوگ سندھ کا حصہ ہیں، انہیں مردم شماری میں شمار کیا جائے، سندھ میں رہنے والے بیرون صوبہ کے لوگوں کو الگ کرنے کی بجائے وفاق سے ان کا حصہ طلب کیا جائے،جئے سندھ قومی محاذ کے الٰہی بخش نے کہا کہ سندھ کی مقامی آبادی کوبڑھتی ہوئی آبادی اورمردم شماری پر تحفظات ہیں، سندھ میں غیرمقامی افراد کی بڑھتی ہوئی آبادی کے پیش نظرمقامی افراد کواقلیت میں تبدیل کرنے کی سازش ہورہی ہے، سندھ میں مقیم غیرمقامی افراد خود کو مردم شماری میں سندھی لکھوائیں۔ سندھ عوامی تحریک کے چیئرمین ایاز لطیف پلیجو نے کہا کہ سندھ کی آبادی 6 یا 7 کروڑ سے کم دکھائی گئی تو مردم شماری قبول نہیں کرینگے۔ پچھلی مردم شماری میں سندھ میں ایک کروڑ 30 لاکھ گھر شمار کئے گئے تھے۔ آل پارٹیز کانفرنس کے بعد ایاز لطیف پلیجو نے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ سندھ حکومت مردم شماری سے پہلے نادرا سے اپنی مردم شماری کرائے۔ سندھ اسمبلی الگ سے مردم شماری کرانے کی قانون سازی کرائے۔ سندھ میں غیر قانونی تارکین وطن سندھ کے وسائل استعمال کر رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ مردم شماری مارچ میں ہونی ہے کسی کو بھاگنے نہیں دینگے۔
وزیراعلیٰ سندھ