شیخ رشید احمد کی ’’ اگلی کتاب‘‘؟
چیئرمین پاکستان پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ’’ مَیں اپنے بابا سائِیں آصف علی زرداری کے ساتھ مِل جُل کر کام کرتا رہوں گا ، اِسی میں میری کامیابی ہے ‘‘ اُنہوں نے یہ بھی کہاکہ ’’ میرے والد صاحب نہ صِرف پیپلز پارٹی بلکہ پورے مُلک کا عظیم اثاثہ ہیں ‘‘ باپ بیٹے کی ناراضی اور صُلح کی خبریں/ افواہیں کئی بار پھیلیں لیکن راضی نامہ ہوگیا۔
’’ بیٹے کا باپ کوسجدہ؟‘‘
جنابِ آصف زرداری صدرِ پاکستان تھے جب اُن کی چیئرمین بلاول سے ناراضی کے بعد صُلح ہُوئی تھی۔ 4 اپریل 2013ء کو ’’ نوائے وقت‘‘ میں شائع ہونے والے میرے کالم کا عنوان تھا ۔ ’’ باپ کا بیٹے کو سجدہ‘‘ یہ ایک تاریخی واقعہ تھا ۔ جب خاندانِ غلاماں کے بادشاہ غیاث اُلدّین بلبنؔ کی وفات کے بعد اُس کا 18 سالہ پوتا کیقباد خان ہندوستان کا بادشاہ بنایا گیا ۔ بادشاہ کا سگا باپ بغرا خان ، پہلے ہی لکھنوتی کا گورنر تھا ۔ ’’تاریخِ فرشتہ ‘‘ کے مطابق ’’ بغرا خان اپنے بادشاہ بیٹے سے ملاقات کے لئے دِلّی آیا تو اُس نے شاہی آداب کے مطابق اُسے تین بار سجدہ کِیا۔ پھر بادشاہ نے تختِ شاہی سے اُتر کر اپنے باپ (بغرا خان) کے قدموں میں اپنا سر رکھ دِیا لیکن باپ تا عمر اپنے بادشاہ بیٹے کے ماتحت ہی رہا‘‘
جنابِ زرداری نے محترمہ بے نظیر بھٹو کے قتل کے بعد (مرحومہ کی مبیّنہ وصیت کے مطابق )اپنے بیٹے بلاول کو پاکستان پیپلز پارٹی کا چیئرمین نامزد کر کے خُود اُس کی ماتحتی قبول کرلی تھی ۔ سجدہ اِس لئے نہیں کِیا کہ جمہوریت میں ایسا نہیں ہوتا۔ اب جنابِ زرداری مخدوم امین فہیم مرحوم کی پاکستان پیپلز پارٹی پارلیمنٹیرینز ( پی۔ پی۔ پی۔ پی) کے چیئرمین ہیں ، چیئرمین سینٹ میاں رضا ربانی، قومی اسمبلی میں قائدِ حزبِ اختلاف سیّد خورشید شاہ اور وزیراعلیٰ سندھ سیّد قائم علی شاہ اور سینٹ ، قومی و صوبائی اسمبلیوں کے بہت سے ارکان کا تعلق پی ۔ پی۔ پی۔ پی سے ہے ۔ یعنی وہ سب جنابِ زرداری کے تابِع ہیں ۔ الیکشن کمِشن کی ہدایت پر ہی جنابِ زرداری جنابِ بھٹو اور محترمہ بے نظیر بھٹو کی یادگار پاکستان پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین کا عہدہ چھوڑ ا ۔ بلدیاتی انتخابات میں چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کی پاکستان پیپلز پارٹی کے کچھ لوگ کامیاب ہُوئے۔ 2018ء کے عام انتخابات میں ’’بھٹو اِزم ‘‘ کا عَلم لے کر جنابِ زرداری کی پارٹی میدان میں اُترے گی یا چیئرمین بلاول بھٹو کی ؟کون جانے؟ بلاول صاحب نے اپنے بابا سائِیں کے ساتھ مِل جُل کر کام کرنے کا صحیح فیصلہ کِیا ہے ۔ زرداری صاحب پُورے مُلک کا اثاثہ ہیں یا نہیں؟ یہ بات بھی بحث طلب ہے ۔ ہمارے معاشرے میں سعادت مند بیٹے کا باپ کے قدموں پر سر رکھنا! اچھا سمجھا جاتا ہے ۔اگر کسی روز کسی نیوز چینل پر ’’ بیٹے کا باپ کو سجدہ ‘‘ کرنے کا منظر دِکھایا جائے تو اُسے دیکھ کر مجھے اور میرے لاکھوں ساتھیوں کو خوشی ضرور ہوگی۔
شیخ رشید احمد کی ’’ اگلی کتاب‘‘؟
ایک اردو اخبار کی خبر کے مطابق عوامی مسلم لیگ کے صدر شیخ رشید احمد نے حلف اٹھا کر اپنی ’’ اگلی کتاب‘‘ میں سیاستدانوں اور حکمرانوں کے بارے میں سچ لِکھنے کا اعلان کِیا ہے اور کہا ہے کہ ’’ مَیں سچ لِکھوں گا خواہ لوگ مجھے مار ہی کیوں نہ دیں ‘‘۔ خبر میں شیخ رشید صاحب کی پچھلی کتاب ’’ فرزندانِ پاکستان‘‘ کا بھی تذکرہ ہے جو محترمہ بے نظیر بھٹو کی خودنوشت‘‘ دُخترِ پاکستان‘‘ کے مارکیٹ میں آنے کے بعد شائع ہُوئی تھی۔ شیخ صاحب نے کہا ہے کہ ’’میری کتاب ’’ سب اچھا ہے ‘‘ کا مسّودہ تیار ہے لیکن اُسے مکمل کرنے کے لئے مجھے وقت نہیں مِل رہا ہے ‘‘ مَیں چونکہ ’’ پنجابی میڈیم‘‘ ہُوں، اِس لئے مجھے نہیں معلوم کہ خبر نگار نے اُردو کا لفظ ’’ اگلی‘‘ استعمال کِیا ہے یا انگریزی کا "Ugly" ؟۔ اُردو کا لفظ ۔ ’’ اگلی‘‘ ۔ ’’ اگلا‘‘ ۔کی مونث ہے ۔ ’’اگلے زمانے والے ‘‘ ، زمانۂ قدیم کے لوگوں کو کہتے ہیں ۔ اُستاد صباؔ لکھنوی نے کہا تھا …
’’ کُوچۂ یار کی راہیں ، کوئی ہم سے پوچھے!
خِضرؑ کیا جانیں، غریب اگلے زمانے والے؟‘‘
کافی عرصہ سے علم و ادب سے نا آشنا لوگ کوچۂ صحافت میں دَر آئے ہیں اِس لئے خبر نگار نے ’’ آئندہ‘‘ کے بجائے ’’ شیخ رشید احمد کی ’’ اگلی‘‘ کتاب‘‘ لِکھا ہے ۔ انگریزی زبان کے لفظ "Ugly" کا مطلب ہے ’’ بدصُورت، ناگوار اور بیہودہ‘‘۔ جب شیخ صاحب حلف اٹھا کر اپنی کتاب ’’ سب اچھا ہے ‘‘ میں سیاستدانوں اور حکمرانوں کے بارے میں سچ لِکھیں گے اور سچ بھی ایسا جسے ’’ لوگ ‘‘ انہیں مار نے سے بھی دریغ نہیں کریں گے ۔ خدانخواستہ اگر ایسا ہُوا تو پہلے شیخ کی کتاب کے متاثرین اُن کی کتاب کو "Ugly" ضرور کہیں گے ۔ شیخ رشید احمد ،میاں نوازشریف کی وزارتِ عُظمیٰ کے پہلے دَور میں وفاقی وزیرِ اطلاعات و نشریات تھے جب اُنہوں نے حلف اُٹھائے بغیر اپنی خود نوشت ’’ فرزندِ پاکستان‘‘ چھپوائی ۔ اُس وقت اُنہوں نے اس خدشے کا اظہار نہیں کِیا تھا کہ ’’ میری کتاب پڑھ کر لوگ مجھے قتل بھی کرسکتے ہیں ‘‘۔ شاید اِس لئے کہ شیخ صاحب اپنی کتاب، اُردو کے لفظ ’’ اگلی ‘‘ کی روشنی میں وزیراعظم نوازشریف سمیت دوسرے سیاستدانوں کی شرافت کا تذکرہ کِیا تھا جِس سے ’’ فرزندانِ پاکستان ‘‘ کے قارئین نے یہ تاثر لِیا کہ …
’’ ابھی اگلی شرافت کے ، نمونے پائے جاتے ہیں ‘‘
شیخ صاحب کا یہ جُملہ بھی وضاحت طلب ہے کہ کتاب کا مسودہ تیار ہے لیکن اُسے مکمل کرنے کے لئے مجھے وقت نہیں مِل رہا‘‘۔ میاں رضا ربانی نے مارچ 2015ء میں سینٹ کی چیئرمین شِپ کا حلف اُٹھانے سے ایک دِن پہلے کہا تھا کہ ’’ مَیں اپنی چوتھی کتاب لِکھ رہا ہُوں لیکن مَیں نے فی الحال اپنی چوتھی کتاب کا نام نہیں رکھا ‘‘ 11 ماہ گزر گئے لیکن ابھی تک کوئی اطلاع نہیں اور ہاں! میاں صاحب نے یہ بتانا بھی ضروری نہیں سمجھا کہ ’’ مَیں نے کتاب لِکھنے سے پہلے سچ لِکھنے کا حلف اٹھایا تھا ‘‘ علاّمہ طاہر اُلقادری 55 کتابوں کے مصنف ہیں ۔ اُنہوں نے بھی کوئی کتاب لِکھنے سے پہلے سچ لِکھنے کا حلف نہیں اٹھایا ۔ شاید اُنہوں نے خلوت میں اپنے عقیدت مندوں کو اتنا ہی بتانا کافی سمجھا ہوگا کہ …
’’ کہتا ہُوں سچّ کہ ، جھوٹ کی عادت نہیں مجھے‘‘
اُس وقت مُوذی مچھر ’’ ڈینگی‘‘ نے اپنے پَر پُرزے نہیں نکالے تھے ، جب ہریانوی زبان کے ایک پرانے شاعر نے کہا تھا کہ …
’’ جُھوٹ رَے! اِتنا بولِیو ، جِتناجُھوٹ سُہائے!
اسّی من کا گھونگرُو،ما چھّر باندھے جائے!‘‘
یعنی ’’ اے دوست !۔ جُھوٹ اِتنا بولنا چاہیے کہ جِتنا مناسب ہو ( مَیں نے دیکھا کہ ) ایک مچّھر اسّی من کا گھنگرو ، پائوں میں باندھ کر جا رہا ہے ۔ دروغِ برگردنِ ’’راوی و سندھ‘‘ ۔ کہ محترمہ شیریں رحمن نے جنابِ بھٹو کے’’ روحانی فرزند‘‘ جناب آصف زرداری کو مشورہ دِیا ہے کہ ۔ ’’ سَر ! آپ بھی ’’ دامادِ مشرق‘‘ کے نام سے اپنی خود نوِشت لِکھیں!‘‘ جنابِ زرداری نے کہا کہ ’’ کہیں مشرق کا کوئی مُلک بُرا ہی نہ منا جائے ‘‘ تو محترمہ نے کہا کہ ’’ آپ اپنے پِیر، پِیر اعجاز شاہ سے دُعا کرائیں کہ جنابِ بھٹو کی کوئی وصیت برآمد ہو جائے جِس سے ثابت ہو جائے کہ جنابِ ذوالفقار علی بھٹو جوانی میں شاعری کرتے اورمشرق تخلص کرتے تھے ‘‘۔