تلوار کی دھار
میری ملاقات جب فوج کے کسی سینئر افسر سے ہوتی ہے یا میں نے جب بھی کسی فوجی کی کتاب پڑھی ہے تو میں نے شدت سے اس بات کو محسوس کیا ہے کہ 1971ء کی جنگ کے نتیجے میں سقوط ڈھاکہ کا سانحہ اور المیہ ان کے ذہن سے کسی صورت نہیں نکلتا بلکہ روز بروز اس کی شدت میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔
آجکل میرے زیر مطالعہ کرنل عامل اختر کی کتاب ’’تلوار کی دھار، ہے، وہ لکھتے ہیں کہ نہ میں رومی ہوں نہ میں رازی ہوں لیکن میری زندگی کی راتیں ایسی کشمکش میں گزریں کہ کس طرح دسمبر 1971ء میں ایک فرسٹ کلاس آرمی کو میدان جنگ میں سر جھکانے پر مجبور کر دیا گیا۔
اس کی وجہ آسان ترین زبان میں سمجھ لیجئے اگر کوئی قیادت ایک صفحے پر نہ ہو تو آرمی کے افسروں اور جوانوں کا عزم، حوصلہ اور قربانیاں ضائع چلی جاتی ہیں 71ء کی جنگ میں ہماری قیادت کا شیرازہ منتشر تھا۔ چمن میں ہر طرف اوارق حیات بکھرے پڑے تھے، شکست میں دشمن کی چالوں سے زیادہ ارباب وطن کی سیاہ مستیوں کا دخل تھا، یہ قتل نہ تھا، خودکشی تھی آج بھی شرارِ اشرار ہمیں خاکستر کرنے پر تلا ہوا ہے۔ اگر ہم دشمن کی چالوں کو ناکام بنانا چاہتے ہیں تو لازم ہے کہ ہماری قومی قیادت Vision and Character کی دولت سے مالا مال ہو، ورنہ 16 دسمبر بار بار آ سکتا ہے۔
کرنل عادل اختر کے ساتھ منگلا کے سابق کور کمانڈر لیفٹیننٹ جنرل خالد لطیف مغل بھی 71ء کی جنگ میں مشرقی پاکستان میں تھے، وہ بھی سقوط ڈھاکہ کے عینی شاہد ہیں انہوں نے کتاب کا پیش لفظ لکھا، اور انہوں نے یہ کتاب مجھے عنایت فرمائی، ان کے بقول کرنل عادل اختر کی بنیادی سوچ یہ ہے کہ اگر جنگ میں کوئی اعلیٰ مقصد پیش نظر نہ ہو اور اخلاقی ضابطوں کی پابندی نہ کی جائے تو جنگ محض خونریزی ہے دوسری سوچ یہ ہے کہ اگر جنگی اصولوں اور اخلاقی ضابطوں کی پابندی نہ کی جائے تو محض مسلمان ہونا جنگ جینے کیلئے کافی نہیں، جوش و جذبہ اور قوت ایمانی، جرنیلوں کی حماقتوں (Blunders) کا ازالہ نہیں کر سکتے۔ 1971ء کی جنگ اور 1998ء میں کارگل کی مہم جوئی اس کا واضح ثبوت ہے، جنگ میں مادی وسائل کو نظر انداز کیا جا سکتا ہے نہ عسکری اصولوں کو جنگ کا سب سے بڑا ہتھیار عقل اور اخلاقی اصول ہیں۔ جرنیل کا کارنامہ یہ ہے کہ جنگ میں ہلاکتیں کم سے کم ہوں اور جنگ کے اثر دیر پا ہوں۔
پاکستان میں دہشت گردوں کے خلاف حالیہ جاری آپریشن ضرب عضب کا ایک نمایاں پہلو یہی ہے کہ افواج پاکستان کی مہارت اور جنرل راحیل شریف کی بہترین منصوبہ بندی کے باعث کسی ایک بھی سویلین کی ہلاکت نہیں ہوئی اور مجموعی طور پر بھی ہلاکتوں کی تعداد بہت کم ہے۔ امید کی جا سکتی ہے کہ اس آپریشن کی تکمیل سے پاکستان پرامن ملک بنے گا۔ انہوں نے اہم موضوعات پر بھی لکھا، پاکستان میں اکثر یا تو وزیر دفاع ہوتا ہی نہیں یا کوئی انتہائی نا اہل شخص اس کرسی پر خانہ پری کیلئے بٹھا دیا جاتا ہے۔ وزیر دفاع کے عہدے کی اہمیت کو نہ سمجھنا ایک مہلک غلطی ہے۔
پاکستان نے کسی بھی جنگ کا صحیح تجربہ کیا نہ غلطیاں کرنیوالوں کا احتساب کیا مہران کراچی نیوی کے اڈے پر تخریبی کارروائی کر کے انتہائی جنگی اہمیت کے حامل ہوائی جہاز تباہ کر دیئے گئے۔ یہ نیوی قیادت کی سنگین غلطی تھی اتنی بڑی غفلت اور لاپرواہی کو معاف کر دیا گیا، کسی بھی اہلکار کے خلاف کوئی کارروائی نہ ہوئی، حالانکہ سچے سپاہی کی زندگی بھی کیا زندگی ہے، جنگ ہو رہی ہو تو خون، خوف اور خندق میں گزرتی ہے۔ جنگ نہ ہو رہی ہو تو ڈسپلن کی ٹائیٹ زنجیروں میں بندھا رہتا ہے۔ اگر قسمت کی دیوی مہربان ہو تو نشان حیدر مل جاتا ہے۔ ورنہ قبر کا نشان بھی نہیں ملتا۔ سرحدوں کی حفاظت ہو، قدرتی آفات ہوں، بروقت اپنا فرض ادا کرنے کے کیلئے تیار رہتا ہے۔ راقم کی رائے یہ ہے کہ آجکل ہم خوش قسمت ہیں کہ قومی اور عسکری قیادت متحد ہے اور ایک جدی پشتی اور مستند سپاہی کوسپہ سالار بنا دیا گیا ہے۔ جو وانا اور کوئٹہ میں را کے چیلنج کو قبول کرتا ہے۔ اور جو اندرون اور بیرونی دہشت گردی اور بدعنوان دہشت گردوں کے خلاف بیک وقت لڑ رہا ہے۔ اس لئے امید کی کرن پھوٹی ہے۔ کہ نصف صدی سے جاری ظلمات سپیدہ سحر میں بدل جائیگی، بقول اقبالؒ…؎
وہ سحر جس سے لرزتا ہے شبستان وجود
ہوتی ہے، بندہ مومن کی اذاں سے پیدا!!