• news
  • image

احتساب کرنیوالے اداروں کو ڈرانے سے احتساب نہیں ہوگا

حکومت نے قومی احتساب بیورو کو کنڑول کرنے کیلئے خصوصی کمیشن تشکیل دینے کا فیصلہ کیا ہے جس کے سربراہ سپریم کورٹ کے ریٹائرڈ جج اور ممبران میں فوج و سول افسران شامل ہونگے۔ اطلاعات کے مطابق وزیراعظم کو یہ مشورہ دیا گیا ہے کہ نیب کی کاروائیوں کو مجوزہ کمیشن کی منظوری سے مشروط کر دیا جائے۔ ملک سے کرپشن کے خاتمے کیلئے 16نومبر 1990ء کو موجودہ وزیراعظم میاں نواز شریف کے سابقہ دور میں نیب کا قیام عمل میں لایا گیا جس کا مقصد ملک سے بد عنوانی اور کرپشن کا خاتمہ اور گڈگورننس کے فروغ میں مدد فراہم کرنا بتایا گیا۔ حکومت پنجاب کو خوف ہے کہ نیب کا رخ اس طرف نہ ہو جائے اسی لیے نیب کا راستہ روکنے کیلئے اس پر ایک کمیشن بٹھایا جا رہا ہے‘ گویا احتساب کے ادارے کا بھی احتساب ہو گا لیکن اس کمیشن کا احتساب کون کریگا؟ اس پر ایک ادارہ بننا چاہیے۔ کمیشن پر اعتراض کے بعد یہ کہا گیا ہے کہ یہ غیر جانبدار ادارہ ہو گا یعنی نیب غیر جانبدار نہیں تھا۔ لیکن مذکورہ کمیشن کی غیر جانبداری کا کیا ثبوت ہو گا؟ اور اگر نیب کے چیئرمین پر جانبداری کا الزام ہے جو وزیراعظم صاحب لگا چکے ہیں تو ثبوت پیش کر کے ان کو فارغ کر دیا جائے۔ چودھری قمر زمان‘ وزیراعظم نواز شریف اور قائد حزب اختلاف خورشید شاہ کا انتخاب ہیں‘ اگر ان میں کوئی خامی ہے تو اس کا ذمہ داری ان دونوں پر بھی عائد ہوتی ہے۔ چیئر مین نیب نے تو بدعنوانی کے تمام مقدمات 10 روز میں نمٹانے کا حکم دے دیا ہے اور پورے ملک سے تفصیلات طلب کر لی ہیں‘ اس میں پنجاب بھی شامل ہے‘ چودھری قمر زمان نے اس عزم کا اظہار کیا ہے کہ اہم حکومتی شخصیات پر عائد مقدمات کے حوالے سے بلا خوف و خطر پیش رفت جاری رکھی جائے۔ چیئرمین نیب نے یہ ہدایت بھی کی ہے کہ جن مقدمات کی تحقیقات حتمی مراحل میں ہے ان پر آپریشنل کارروائیاں تیز کی جائیں۔ اب تو نیب اہم شخصیات پر اپنا شکنجہ کسنے میں کامیاب ہو جائے گا یا چودھری قمر زمان کو اس طرح فارغ کر دیا جائے گا جس طرح خیبر پختونخوا میں تحریک انصاف کی حکومت نے کیا ہے‘ بصورت دیگر خصوصی کمیشن بنا کر نیب ہی کو قابو کر لیا جائے گا اس سے ملک میں مقتدر افراد اور اداروں کا احتساب کبھی نہیں ہو سکے گا؟
عمومی تاثر یہی ہے کہ مسلم لیگ (ن) کی حکومت اہم شخصیات کیلئے قومی احتساب بیورو سے کُھلم کُھلا تصادم پر اُتر آئی ہے۔ بہاولپور میں وزیراعظم نوازشریف نے نیب کو جو دھمکیاں دی ہیں اسکے بعد انکے حواری بھی میدان میں اتر آئے ہیں۔ ان میں سرفہرست پنجاب کے وزیر قانون رانا ثناء اﷲ ہیں۔ انہوں نے کہا ہے کہ نیب صنعت کاروں اور سرمایہ کاروں کو ڈرا رہی ہے۔ وہ پاکستان میں سرمایہ کاری کرنے سے ڈریں گے۔ اس ضمن میں رانا ثنا اﷲ نے بڑے سرمایہ دار‘ صنعت کار اور بینکار میاں منشاء کا خاص طور پر ذکر کیا اور نیب پر الزام عائد کیا کہ میاں منشاء کو دفتر میں بُلا کر تین تین گھنٹے انتظار کرایا جاتا ہے۔ ایک بڑے آدمی کیلئے رانا صاحب کا دکھ اپنی جگہ لیکن خود میاں منشا نے اس کی تر دیدکی ہے اور ایک انٹرویو میں تسلیم کیا کہ نیب کے دفتر میں ان سے بڑے احترام کا سلوک کیا جاتا تھا نہ صرف چائے تواضح کی جاتی تھی بلکہ ان کے ہاتھ بھی چومے جاتے تھے۔ راناثناء اﷲ نے صرف میاں نواز شریف کی حمایت میں نیب کیخلاف کند تلوار سونت لی ہے۔ میاں صاحب کے اور بھی کئی وفادار ہیں جن میں کچھ کالم نگار بھی ہیں لیکن میاں نواز شریف خود اپنی اداؤں پر غور کریں۔ وہ اچانک نیب کیخلاف ہو گئے تو اس کوکوئی اہم وجہ تو ہوگی۔ مبصرین کا کہنا ہے کہ بدعنوانی کے مقدمات میں کئی اہم حکومتی رہنما گرفت میں آسکتے ہیں اور نیب ان پر ہاتھ ڈالنے کی تیاری کر چکی ہے۔ ان رہنمائوں میں اسحاق ڈار‘ شاہد خاقان عباسی‘ خواجہ آصف ‘ سعد رفیق‘ رانا مشہود‘ حنیف عباسی‘ ریاض پیرزادہ ہی نہیں خود شریف برادران میں آسکتے ہیں‘ جن پر 15 سال سے ایک مقدمہ نیب کے پاس ہے۔ چنانچہ جوابی کارروائی کے طور پر وفاقی وزراء چیئرمین نیب چودھری قمر زمان کیخلاف شواہد جمع کرنے کیلئے سرگرم ہو گئے ہیں۔ صرف اتنا ہی نہیں نیب کو پابند کرنے کیلئے ایک خصوصی کمیشن بنایا جا رہا ہے اور نیب کو ہدایت کی گئی ہے کہ کوئی قدم اٹھانے یا کارروائی سے پہلے اس کمیشن سے اجازت لینا ہو گی۔ نیب کیلئے قانون میں بھی تبدیلی کی جا رہی ہے۔
نیب کنڑول کرنے کیلئے سیاسی قانونی مشاورت کے بجائے وزیراعظم کو ایک بار پورے عزم و ایمان‘ قوت ارادی اور حب وطنی کے ساتھ صرف ایسے مشورے اور اقدامات کرنے چاہئیں‘ جن سے ملک کی بقاء سلامتی کو یقینی بنایا جا سکے۔ اسکی خاطر اگر انہیں کرپٹ ساتھیوں اور خود اپنے مال و دولت کی بھی کچھ قربانی دینی پڑے تو ملک کے وسیع تر مفاد میں سے گریز نہیں کرنا چاہیے۔ جس ملک کی بظاہر ترقی پذیر معیشت کا یہ حال ہے کہ اسکی خاطر چھ ارب روپے یومیہ کے حساب سے قرضے لیے جا رہے ہیں۔ تصور کیجئے کے وہ ملک مسلم لیگ (ن) کی موجودہ حکومت پوری ہونے تک قرضوں کے جال میں کس طرح جکڑا ہو گا؟ اسکی خاطر پی آئی اے‘ سٹیل مل سمیت اڑتیس قومی اداروں کو بیچنا کسی طور بھی ملک و قوم کے مفاد میں نہیں۔ ناقدین کا تاثر ہے کہ یہ ادارے اپنے عزیزوں‘ دوستوں اور حامیوں کو کوڑیوں کے مول فروخت کر کے انہیں فائدہ پہنچانا مقصود ہے۔ نیب نے اب تک بارہ میں تین اعلیٰ بیورو کریٹس کو گرفتار کرایا ہے۔ نوکر شاہی کے بقیہ بد عنوان افسران اور سیاستدانوں کیخلاف نیب کے پاس ہی ثبوت و شواہد نہیں ہیں بلکہ فوجی حکام نے گرفتار شدہ افراد کی مدد سے ایسی کئی فہرستیں تیار کر رکھی ہیں۔ وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات پرویز رشید نے ایک بیان میں کہا ہے کہ نیب نے خود تسلیم کیا ہے کہ ہمارے سسٹم میں قباحتیں ہیں اور سیاسی جماعتوں کو نیب کے طریقہ کار سے تحفظات ہیں۔ دریں اثناء وفاقی وزیر داخلہ چودھری نثار نے کہا ہے کہ کرپشن میں بڑے سیاسی لوگ بھی شامل ہیں‘ حکومت نیب کے پر کاٹنے کی کوشش نہیں کر رہی۔ انکے بیان سے اندازہ ہوتا ہے کہ حکومت اور نیب کے معاملات ٹھیک ہو جائیں گے۔

epaper

ای پیپر-دی نیشن