• news
  • image

پرویز مشرف اور عدالتی شرف باریابی

جنرل (ر) پرویز مشرف نے جب سے میدان سیاست کی جرنیلی سنبھالی ہے عجیب و غریب بیانات اور حرکات سیاسیہ کا ارتکاب فرما رہے ہیں۔ وہ اپنے بیانات میں اپنی شیر دلی کا تذکرہ کرتے رہتے ہیں ان کا یہ جملہ تو ایک زمانے میں بہت مشہور ہوا تھا کہ میں کسی سے ڈرتا ورتا نہیں ہوں لیکن کچھ عرصہ سے وہ ڈرتے ڈرتے دکھائی دے رہے ہیں۔ ڈرنے ورنے سے یاد آیا کہ پرویز مشرف کے دور حکومت میں زراعت اور آبیات پر میرے مضامین نوائے وقت کے زرعی ایڈیشن میں شائع ہوئے تھے ایک دن اچانک نوائے وقت سے فون آیا کہ واپڈا کے چیئر مین حمید نظامی ہال میں کالا باغ ڈیم پر آگاہی دینے کے لیے آ رہے ہیں آپ بھی اس تقریب میں شامل ہوں تقریب کا آغاز ہوا۔ مجید نظامی صاحب کرسی صدرت پر جلوہ افروز ہوئے متعلقہ افسر نے بتایا کہ صدر پرویز مشرف کی ہدایات کے تحت کالا باغ ڈیم کی تعمیر کا آغاز ہونیوالا ہے پھر انہوں نے اس منصوبے سے متعلق ایک دستاویزی فلم دکھائی اور اس ڈیم کی اہمیت پر روشنی ڈالی۔ تقریب کے اختتام پر سوالات کا مرحلہ شروع ہوا اس دوران مجید نظامی صاحب خاموشی سے ساری روداد سنتے رہے آخر میں متعلقہ افسر نے نظامی صاحب کو مخاطب کرکے کہا کہ جناب لیکچر کا اختتام ہو رہا ہے آپ نے کوئی سوال پوچھنا ہے تو پوچھ لیجئے۔ مجید نظامی معنی خیز انداز میں مسکرائے اور پنجابی زبان میں سوال کیا۔
’’پرویز مشرف نے ڈیم بنانا وی اے کہ نس جانا اے‘‘؟
افسر نے جواب دیا جناب صدر پاکستان پرویز مشرف فوجی جرنیل رہے ہیں وہ جو کہتے ہیں کر دکھاتے ہیں ہم سب کو یہ سن کر بہت خوشی اور اطمینان ہوا لیکن پھر ہوا وہی جو نظامی صاحب نے فرمایا تھا۔ کالا باغ ڈیم کی تعمیراتی پیش رفت کی خبر عام ہوئی، تو ایم کیو ایم کے دبنگ رہنما الطاف حسین نے ایک زبردست بڑھک لگائی۔ نتیجہ یہ کہ جنرل پرویز مشرف کی جرنیلی دھری کی دھری اور کالا باغ ڈیم کا تعمیراتی منصوبہ دھرے کا دھرا رہ گیا اور شیر دل پرویز مشرف ایم کیو ایم کے آگے بھیگی بلی بن گئے۔ کسی سے نہ ڈرنے والے پرویز مشرف آجکل عدالتوں کے سامنے بھیگی بلی بنے ہوئے ہیں بلکہ اگر کہا جائے کہ ڈری ہوئی بلی بنے ہوئے ہیںتو زیادہ مناسب ہو گا۔ بلی کے حوالے سے ہمیں ایک زن مرید شوہر یاد آ رہا ہے جس کی بیوی شوہر کیلئے شیر بنی ہوئی تھی۔ کچھ دنوں کیلئے گیڈر بنے ہوئے شوہر نے اپنی شیر بیوی کو نامعلوم وجوہات کی بنا پر بلی بنے ہوئے دیکھا تو اسکے لبوں پر بے ساختہ یہ شعر آ گیا۔
لگ رہی ہے کیوں نجانے آج کل بیوی مری
دم دبا کر جس طرح بیٹھی ہوئی بلی کوئی
بات کہیں کی کہیں نکل جا رہی ہے۔ بات ہو رہی تھی کہ پرویز مشرف صاحب آج کل عدالتوں میں شیر کی طرح پیش ہونے کی بجائے بھیگی بلی بن کر اپنے گھر میں چھپے ہوئے ہیں۔ 20فروری کو جج صاحب نے پرویز مشرف کی مسلسل بہانے باز غیر حاضری کی درخواست کو مسترد کرتے ہوئے حکم جاری کیا کہ 16مارچ کو ملزم کی حاضری یقینی بنائی جائے بصورت دیگر اسے گھر سے گرفتار کرکے عدالت میں پیش کیا جائے۔ حکم نامے میں یہ بھی لکھا گیا ہے کہ پرویز مشرف ٹرائل کورٹ میںحاضری سے متعلق ہائیکورٹ کے احکامات کو نظر انداز کر رہے ہیں اور سیشن عدالت کی جانب سے حاضری کے احکامات کی 55بار خلاف ورزی کر چکے ہیں۔ عدالت نے پرویز مشرف کے ناقابل ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری کر دیئے ہیں اور سابق صدر کے عدالتی ضامنوں کو بھی حکم دیا ہے کہ وہ آئندہ پیشی پر ملزم کی عدالتی حاضری کو یقینی بنائیں ورنہ انکی ضمانتیں ضبط ہو جائیں گی اور ضامنوں کیخلاف قانونی کارروائی بھی ہو گی۔ معزز عدالت نے پرویزی حیلہ سازی کا بھانڈہ پھوڑتے ہوئے یہ بھی لکھا ہے کہ پرویز مشرف کی طرف سے جو میڈیکل سرٹیفیکیٹ پیش کیے گئے ہیں ان میں کہیں درج نہیں ہے کہ موصوف سفر کے قابل نہیں ہیں یا پھر عدالت میں پیش نہیں ہو سکتے۔ یہ عدالتی حکم نامہ پڑھ کر ہمیں ایک شعر یاد آ گیا۔
کسی پیشی پہ بھی پیشِ عدالت آ نہیں سکتے
خدا جانے انہیں بیماریاں لاحق ہوئیں کیسی
حسن اتفاق دیکھئے کہ جس دن عدالت نے پرویز مشرف کے بلاضمانت وارنٹ گرفتاری جاری کرتے ہوئے انہیں آئندہ پیشی پر حاضری کا پابند کیا۔ اسی دن وہ کراچی کے ہوٹل میں ایک خصوصی تقریب میں پیش پیش دکھائی دیئے۔ ایک صحافی نے عدالتی احکامات کے بارے میں سوال انکی خدمت میں پیش کیا تو انہوں نے خندہ پیشانی سے ایک زور دار قہقہہ لگایا اور بولے اس حکم کے بارے میں کیا کہوں انہوں نے یہ بھی فرمایا کہ جو ہو رہا ہے ہونے دو… دیکھتے ہیں کیا ہوتا ہے۔ موصوف کا بین السطور شاید مطلب یہ تھا کہ عدالتوں نے پہلے میرا کیا بگاڑ لیا ہے۔ اب کیا بگاڑ لیں گی۔ اس طنزیہ جملے پر ہمارا دھیان ایک سابقہ پیشی کی طرف چلا گیا۔ اس پیشی پر عدالتی حاضری کیلئے پرویز مشرف کو لایا جا رہا تھا کہ اچانک انکی گاڑی عدالت کی بجائے ہسپتال پہنچ گئی تھی جہاں وہ خود ساختہ دل کی بیماری کے بہانے بہت دن تک صاحب فراش رہے تھے۔ پرویز مشرف کے قہقہہ بار بیان سے لگتا ہے کہ ایک مرتبہ پھر ایسا ہی ڈرامہ ہو سکتا ہے۔ غالب نے شاید ایسی ہی کسی صورت حال میں کہا تھا …ع
ہوتا ہے شب و روز تماشا میرے آگے

epaper

ای پیپر-دی نیشن