گورنر اظہر کی شناخت پریڈ
گورنر میاں اظہر ہوں اور ان کے ساتھ چہل قدمی کرنے والا کوئی فتنہ پرداز ہو اور گورنر ہائوس کی بھول بھلیاں ہوں تو پھر کوئی بھی انہیں روک کر کہہ سکتاہے کہ اپنی شناخت کروائیں۔ یہ ایک سچا واقعہ ہے، سن لیجئے۔
میاں اظہر کہتے ہیں کہ گورنر ہائوس میں وہ اپنے آپ کو قیدی تصور کرتے تھے، کام تو تھا کوئی نہیں، دو چارفائلیں،چند ایک ملنے والے، باقی وقت گزارنا مشکل ہو جاتا، ایک روز انہیں ایک صاحب ملنے آئے، ترنگ میں آ کر گورنر بہادر نے کہا کہ چلئے باہر کھل کر باتیں کرتے ہیں،کچھ دور گئے ہوں گے کہ دیکھا ایک شخص سائے کی طرح ان کے ساتھ لگا ہے، یہ توتنہائی چاہتے تھے، مگر یہ سایہ ان کے ساتھ ساتھ چپکا رہا، آخر تنگ آ کر اسے کہا کہ تم کون ہو اور کیوں تعاقب کر رہے ہو، اس سائے نے ہونٹوں کو جنبش دی اور بتایا کہ وہ انٹیلی جنس کا اہل کار ہے اور سرکاری کتاب کے مطابق اسے گورنر کی حفاظت کے لئے ساتھ ہی رہنا ہے، انہوں نے اسے کسی طرح قائل کر لیا کہ وہ انہیں تنہا چھوڑ دے، اور حفاظت کی فکر نہ کرے، سو یہ مزید آگے چلتے رہے، گورنر ہائوس میں ایک پہاڑی ،ا س پر ایک جھیل ہے اور پر پیچ راستے، ایک موڑ پر کوئی صاحب ٹھک سے ان کا راستہ روک کر کھڑے ہو گئے۔ اور چلا کر بولے، اپنی شناخت کرائو، انہوں نے لاکھ کہا کہ میں لاٹ صاحب بہادر ہوں مگر وہ نہ مانا ، آخر انہوںنے اپنے ملٹری سیکرٹری کو طلب کیا اور اس نے ا ٓکر تصدیق کی کہ یہ حضرت واقعی سے گورنر ہیں تو اس شخص نے ان کی جان چھوڑی۔
ہر کہانی کا ایک سبق ہوتا ہے،ا س کہانی کا سبق یہ ہے کہ بندہ شکل و صورت سے گورنر نہ لگتا ہو تو منہ سے کہنے سے گورنر نہیںہو جاتا، اس گورنر ہائوس کے مکینوں کو ایک گورنر یاد ہے ا ور وہ ہے۔ نواب ا ٓف کالاباغ۔باقی ہر ایک کو ملٹری سیکرٹری کے ذریعے کسی گارڈ سے اپنی جان چھڑوانی پڑتی تھی۔ کچھ کے تو لچھن بھی مشکوک قسم کے تھے۔
میاں اظہر کہتے ہیں کہ یہ جو ان کا رستہ روکنے والی حرکت ہے، یہ اب بھی ان کے ساتھ جاری ہے ، وہ راوی ٹول پلازہ پار کرتے ہیں یا کسی چوک پر کھڑے ہوتے ہیںتو وہاں کوئی روک لیتا ہے، یہ پوچھتے ہیں، کیا غلطی ہوئی، اہل کار آگے سے دست سوال دراز کر دیتا ہے ،میاں جی ! کچھ خدمت کرتے جائیں۔
تو آپ نے گورنر کے طور پر اپنے آ ٓپ کو قیدی کیوں سمجھ لیا۔
اس کی وجہ سن کرا ٓپ بھی ہنسیں گے، کہتے ہیں کہ کیمپ جیل یاکوٹ لکھپت جیل سے صبح سویرے کچھ قیدیوں کو بند گاڑیوںمیں ڈال کر عدالتوںمیںلایا جاتا ہے، مجھے بھی ایسے لگتا تھا کہ میرے آگے پیچھے گاڑیاں اسی طرح مجھے محاصرے میں لے کر گورنر ہائوس لے آتی ہیںا ور واپس گھر چھوڑ آتی ہیں۔
تو آپ گھر کیوں رہتے تھے، گورنر ہائوس میں بسیرا کیوںنہیں کیا۔
یہ الگ کہانی ہے۔جب گورنر بنا تو ٹکا خان وہاں رہائش پذیر تھے، کوئی ہفتے دس دن بعد میرے پاس آئے اور کہنے لگے کہ اجازت ہو تو رہائش کا انتظام ہونے تک یہاں رہ لوں، میںنے کہا کہ آپ مستقل ہی یہیں رہیں، میں تو اپنے گھر رہنا پسند کروں گا۔
اور سناہے آپ نے ٹکا خان کے بیٹے کو ملٹری سیکرٹری کے طور پر برقرار رکھا۔
ہاں ، وہ پہلے سے وہاں تھاا ور میرا دل نہیں مانا کہ اسے فارغ کروں، سوچے گا کہ باپ نہیں رہا تو نوکری بھی نہ رہی۔مگر مجھے اپنی نرم دلی کی بھاری قیمت اد اکرنا پڑی ،پہلے روز ہی سازشی حرکت میں آ گئے اور کھسر پھسر شروع ہو گئی کہ یہ تو اندر سے پیپلیا ہے۔اسی لئے پیپلز پارٹی کے مقرر کردہ گورنر کے بیٹے کو ملازمت سے نہیں نکالا۔
یہ کھسر پھسر کا سلسلہ تو آخر تک آپ کا پیچھا کرتا رہا۔
یہ صحیح بات ہے، میاںنواز شریف کی حکومت ٹوٹی تو میں نے بھی استعفے دے دیا، میں نے سوچا کہ میں جن کا نامزد کردہ ہوں ، ان کی حکومت نہیں رہی تو اس منصب سے چمٹے رہنے کا میرے پا س کوئی جواز نہیں ہو گا، میںنے کوئی غلط کام نہیں کیا، یہ ایک اصولی فیصلہ تھا مگر وہ دن اورا ٓج کا دن میاںنوااز شریف یہ سمجھتے ہیں کہ مجھے مستعفی نہیںہونا چاہئے تھا، میں گورنر ہائوس میں رہ کر ان کی مد دکر سکتا تھا ۔ مگر مجھے معلوم تھا کہ مجھے غلام اسحق ایک لمحے کے لئے برداشت نہں کرے گاا ور میں خودگھر چلا گیا۔میاں صاحب کو میری یہ حرکت پسند نہیں آئی، اور باہمی تعلقات میںایک دراڑ آ گئی جو اب تک چلی ا ٓ رہی ہے۔
میاں اظہر اب سیاست میں متحرک اور سرگرم نہیںہیں ، ان کا بیٹا حماد سیاست کرتا ہے ، یہ دکان پر بیٹھتے ہیں یاکھیتی باڑی میں مشغول رہتے ہیں۔
مگر وہ ایک بھول بسری کہانی نہیں ہیں۔
میاں اظہر دریا کی ایک موج ہیں جو کنارے سے ٹکراتی ہے ، واپس پلٹتی ہئے ا ور پھر کنارے کا رخ کرتی ہے، وہ گھنے سیاہ کڑکتے بادلوںکے پس منظر میں چمکنے والی بجلی کی لہر ہیں جو یکایک آنکھیں چندھیا کر کے رکھ دیتی ہے۔ مگر اس کی دلکشی ذہنوں میں بسیرا کر لیتی ہے۔
میئر کے طور پر ان کا احتساب تاریخ کا یاد گار باب ہے، انہوں نے بیڈن روڈ پر ماموں جان کے تھڑے کو گرا کر اپنے احتساب کا ڈنکا بجایا۔ یہ ماموں جان آج کے وزیر اعظم کے ماموں جان تھے۔یہی وزیر اعظم جونیب سے کہتے ہیںکہ معصوم اور شریف لوگوں کا تنگ مت کرو۔مگر گورنر اظہر کو حضور پاک ﷺ کا یہ ارشاد یاد تھا کہ میری بیٹی فاطمہ رضی اللہ تعالی عنہا بھی چوری کرے گی تو اس کے ہاتھ بھی کاٹ دوں گا ۔ میئر اظہر نے بے لاگ آپریشن کیاا ور شہر کا حلیہ تبدیل کر دیا، وہ گورنر بنے تو انہیں لااینڈ آرڈر کا چارج بھی دیا گیا، یہ آئین ا ور قانون سے ماورا ذمے داری تھی مگر افہام وتفہیم سے تفویض کی گئی تھی، گورنر اظہر نے اس آپریشن میں مجرموں پر ہاتھ ڈالا تو پتہ چلا کہ یہ سب تو حکمران ارکان ا سمبلی کے باڈی گارڈز تھے ۔ ایک ہا ہاکار مچ اٹھی۔ ارکان ا سمبلی نے پہلے پولیس کو بھڑکایا ۔ آئی جی پولیس نے گورنر سے کہا کہ یہ ہمارا کام ہے، ہمیں وسائل دیں اورہمیں کرنے دیں، گورنر نے کہا کہ آپ کے پاس سرے سے انٹیلی جنس ہی نہیں، آپ کو ایف سولہ بھی دے دوں تو آپ سارے میزائل کسی نہر میں گرا کرا ٓ جائیں گے۔ ارکان اسمبلی نے وزیر اعلی غلام حیدر وائیں کو کھڑا کیا کہ یہ تو آپ کے اختیارات میں دخل ا ندازی کے مترادف ہے، یوں میاں اظہر کے پر کاٹ دیئے گئے اور ارکان اسمبلی کے پالتو غنڈے شیر ہو گئے۔
آج فوج ، رینجرز ، نیب، ایف آئی کے پر کاٹنے یا ناخن تراشنے کی باتیں ہو رہی ہیں۔
میاں اظہر والی کہانی دہرائی جا رہی ہے، کہانی بھی وہی ہے، کردار بھی وہی ہیں اور انجام بھی وہی نظرا ٓتا ہے۔