تحفظ خواتین بل، مردوں کے پاس قانونی دفاع کیلئے کچھ نہیں بچے گا: سینئر وکلاء
لاہور (ایف ایچ شہزاد سے) پنجاب اسمبلی میں منظور کردہ تحفظ خواتین بل کو خواتین کے حقوق کیلئے انتہائی اہم قرار دیا جا رہا ہے مگر بل میں ایسے نکات بھی ہیں جو مذہبی، خاندانی اور معاشرتی اقدار پر منفی اثرات مرتب کر سکتے ہیں۔ قانونی حلقے قانون کو آئین کے آرٹیکل 14 اور 25 سے متصادم قرار دے رہے ہیں جس کی وجہ سے بل جلد ہی اعلیٰ عدالتوں میں چیلنج ہونے کا امکان ہے۔ بعض حکومتی وکلاءنے بھی اس بات سے اتفاق کیا ہے کہ پنجاب اسمبلی کے منظورہ کردہ بل میاں بیوی کے مابین حقوق وفرائض کے توازن کو متاثر کر سکتا ہے۔ پروٹیکشن آرڈر، ریذیڈینس آرڈر اور مانیٹری آرڈر میں منظور کردہ نکات سے خاتون کو قانونی تحفظ حاصل ہو جائیگا مگر گھریلو ماحول سے چلنے والا تحفظ ختم ہو سکتا ہے۔ اس طرح قانون کے تحت دی گئی انفرادی آزادیوں کو مشترکہ خاندانی نظام میں رہ کر سنبھالنا مشکل ہو جائیگا، اسی بنیاد پر سماجی حلقے قانون کے ذریعے خواتین کو انفرادی آزادی دینے کی بجائے مصالحتی نظام کے تحت حقوق دینے کی بات کررہے ہیں۔ قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ خواتین کے تحفظ کیلئے قوانین ضرور بنائے جائیں مگر فیملی لاز میں ایسی ترامیم مناسب نہیں جو فریقین کے مابین حقوق وفرائض کے توازن میں بگاڑ پیدا کردیں۔ بعض سینئر وکلاءکی رائے میں اس بل کے بعد گھریلو تنازعات میں مردوں کے پاس قانونی دفاع کیلئے کچھ نہیں بچے گاجو آئین کے آرٹیکل 14اور25 سے متصادم ہے، عائلی مقدمات میں عدالت کی یہ بھی ذمہ داری ہوتی ہے کہ وہ مدعی اور مدعا علیہ کو کارروائی میں ایک خاص حد تک متوازن رکھے مگر مذکورہ قانون کی منظوری کے بعد اس میں کچھ فرق آ سکتا ہے۔
قانونی ماہرین