ملتان: جعلی خواجہ سرا بھیک مانگتے پکڑے گئے اصل خواجہ سرائوں نے پھینٹی لگائی، منہ کالا کر دیا
خواجہ سرائوں کی لڑائی کو دیکھنے کا مزا آتا ہے۔ اگر آپ کو دیکھنے کا موقع نہیں ملا تو پریشان مت ہوں کسی وقت آپ ارکان اسمبلی کی لڑائی دیکھ لیں ایک دوسرے کی فوٹو کاپی ہی ہوتے ہیں دونوں دور دور سے اشاروں ہی اشاروں میں لگے رہتے ہیں۔ ایک لڑائی کی ویڈیو پر پردہ ڈال کر دوسری ویڈیو چلا لیں تو آپ پہچان نہیں سکیں گے کہ کون لڑ رہا ہے۔ لیکن مزے کی بات یہ ہے کہ خواجہ سرا آج کل اصل ہوتے ہیں نہ ہی سیاستدان اصل ہیں ہر کسی نے چہرے پر دو نمبری کا ماسک چڑھا رکھا ہے۔ زمانہ ماضی میں نواب زادہ نصراللہ اور ملک معراج خالد جیسے مرنجاں مرنج سیاستدان ہوتے تھے آج کل کچھ بہروپیوں نے سیاست کا لبادہ اوڑھ رکھا ہے۔ جو چند ٹکوں پر اپنے ضمیر کا سودا کر لیتے ہیں۔ ایسے ہی دو نمبر خواجہ سرا ہیں۔ جنہیں ناچنے کا ڈھنگ آتا ہے نہ ہی ان کی چال ڈھال سے کچھ پتہ چلتا ہے۔ ایسا ہی حال ہمارے سیاستدانوں کا ہے۔ بہرحال ملتان کے خواجہ سرا بڑے خوش قسمت ہیں کہ انہوں نے اپنی کاپی کو پکڑ کر اس کا منہ کالا کر دیا۔ لاہور میں تو یوں لگتا جیسے سارے ہی جعلی ہیں کیونکہ آجکل یہاں پر کوئی اصلی نظر نہیں آتا اور سارے جعلی بھیک مانگتے پھر رہے ہیں۔ خواجہ سراء بھی سیاستدانوں کی طرف دیکھ کر یوں گویا ہوتے ہیں…ع
’’وہ اپنی خو نہ چھوڑیں گے ہم اپنی وضع کیوں بدلیں‘‘
…٭…٭…٭…٭…
اورنج ٹرین پر چائلڈ لیبر، صوبائی قوانین میں بچوں کی عمر غلط لکھنے پر جواب طلب
حکومت پنجاب میٹھا ہپ ہپ اور کڑوا تھو تھو کی پالیسی پر عمل پیرا ہے۔ اینٹوں کے بھٹوں پر تو حکومت نے چائلڈ لیبر پر پابندی عائد کر رکھی ہے۔ جبکہ اورنج ٹرین پر سستی لیبر تلاش کر لی ہے۔ حکومتی چھتری کے نیچے قانون کی دھجیاں اڑائی جا رہی ہیں لگتا ہے صوبے کے خادم سوئے ہوئے ہیں۔ انہیں کام کی خبر ہی نہیں۔ پنجاب اسمبلی نے قانون بنایا تو خادم پنجاب نے لٹھ پکڑ لی اور بھٹوں کے مالکان کو آگے لگا لیا۔ پکڑ دھکڑ شروع ہو گئی۔ انتظامیہ کی بھی چند دن خوب چاندنی رہی۔ پولیس نے چائلڈ لیبر کی آڑ میں بھٹوں کے مالکان کو بھی خوب بلیک میل کیا اب بھٹوں کے مالکان اس پر سراپا احتجاج ہیں اور انہوں نے گزشتہ روز احتجاج بھی کیا ہے۔ اب اینٹیں بھی مہنگی ہو رہی ہیں۔ خادم پنجاب اگر بھٹوں پر چھاپے مار سکتے ہیں تو پھر انہیں اورنج ٹرین کی سائیڈوں کا بھی خفیہ وزٹ کرنا چاہیے۔ اگر حکومت میٹھا ہپ ہپ کرتی رہی تو پھر قانون کی عملداری تو قائم نہیں ہو سکے گی اس لئے انہیں گلگلوں سے گریز کرنا چاہیے۔ بھٹہ مالکان تو اس اقرباء پروری پر یوں ہی گویاں ہو رہے ہونگے…؎
تھی خبر گرم کہ غالب کے اڑیں گے پرزے
دیکھنے ہم بھی گئے تھے پر تماشا نہ ہوا
خادم پنجاب ذرا تماشا لگائیں اور چائلڈ لیبر پر یکساں قانون بنائیں۔ کیونکہ سب کے لئے ایک ہی قانون ہونا چاہیے۔
روس نے 10 ہزار کلاشنکوف افغانستان کو دے دیں۔
ماسکو نے کابل کو رام کرنے کیلئے پھر سے دستر خوان بچھا دیا ہے۔ ماسکو کے پرانے زخموں سے ابھی خون رس رہا ہے۔ لیکن اس کی آنکھوں سے ابھی تک خمار نہیں گیا، ماسکو کے لئے کیا ہی بہتر ہوتا کہ وہ اپنے زخموں کو چاٹتا رہتا اور خاموش رہ کر اشرف غنی اور طالبان کی لڑائی دیکھتا۔ لیکن وہ 10 ہزار کلاشنکوفیں دیکر براست لڑائی میں کود آیا ہے۔ 10 ہزار کلاشنکوفیں اس کیلئے ناکافی ہیں۔ روس تو کئی سال بھاری اسلحہ جھونکنے کے باوجود بھی افغانستان کو فتح نہیں کر سکا۔ یہ زخمی ہاتھی کراہتا رہتا تو اس کیلئے بہتر تھا۔ کیونکہ لڑائی تو اس کے بس کی بات نہیں افغانیوں کی غیرت کو للکارا گیا تو وہ پھر سے اٹھ کر گویا ہوں گے…؎
یہ کس نے ہم سے لہو کا خراج پھر مانگا
ابھی تو سوئے تھے مقتل کو سرخرو کر کے
کیونکہ افغانیوں کے پاس حمیت اور غیرت کے سوا اور کچھ نہیں ہے اس لئے بہتر یہی ہے کہ 10 ہزار کلاشنکوفوں کا تحفہ واپس لے لیں۔ اگر خطے میں امن ہوتا ہے تو اس کے راستے میں روڑے مت اٹکائیں۔
…٭…٭…٭…٭…
وفاقی اور سندھ حکومت کی بھوک ہڑتال سے بے نیازی پر ایم کیو ایم کا ایوان زیریں سے واک آئوٹ۔
بھلا کیا بھوک ہڑتال کا تماشہ ایم کیو ایم نے حکومت سندھ یا وفاقی حکومت سے پوچھ کر لگایا تھا کہ اب ان کی اس سے بے نیازی پر ایم کیو ایم والوں کو غصہ آ رہا ۔ کل کلاں کو سندھی یا بلوچ قوم پرست تحریکوں کے ارکان بھی اپنے رہنمائوں کی براہ راست ٹی وی چینلز پر ملک دشمن قسم کے بیانات براہ راست سنوانے کے لیے بھوک ہڑتالی کیمپ لگا کر بیٹھ جائیں تو کیا حکومت ان کی بات مان لے گی۔
الطاف بھائی کی تقاریر کا چسکا ایم کیو ایم والوں کے لیے تریاق کا درجہ رکھتا ہو گا مگر باقی لوگوں یعنی پاکستان کے باقی عوام کو وہ ہضم نہیں ہوتیں‘وہ چینل بدل دیتے ہیں تو کیا انہیں زبردستی مجبور کیا جا سکتا ہے کہ وہ لازمی یہی تقاریر سنیں۔ ایم کیو ایم کو اپنے رہنما کی تقاریر سننے کا اتنا ہی شوق ہے تو وہ ویسے بھی ویڈیو لنک اور ٹیلی فونک خطاب سے پورا ہو رہا ہے۔ تو پریشانی کیسی، جس جس نے انہیں سننا ہوتا ہے وہ عزیز آباد جا کر سن سکتا ہے۔ کسی کو مجبور تو نہیں کیا جا سکتا۔ اس کا ادراک خود ایم کیو ا یم والوں کو بھی ہے اسی لیے تو انہوں نے پنجاب میں الطاف بھائی کی تقاریر پر بندش کے خلاف بھوک ہڑتالی کیمپ لگانے اور احتجاج کا سلسلہ موخر کر دیا ہے۔
اس حقیقت کا ادراک جتنا بھی زیادہ ہو اچھا ہے ورنہ اگر باقی سب سیاسی جماعتیں بھی یہی حق طلب کرنے لگیں تو شاید الطاف بھائی کو تقریر کا وقت ہی نہ ملے ان کا نمبر ہی نہ آئے۔ ویسے بھی ان کی زبان اور بیان پر اب وہ گرفت نہیں رہی جو پہلے کبھی ہوتی تھی۔ اسکے باوجود وہ ایم کیو ایم کے مسلمہ قائد ہیں انہیں ٹی وی چینلز کا قائد نہ بنایا جائے۔
٭٭٭٭٭