سیاسی قیادت اور عسکری قیادت میں فرق؟
’’صدر‘‘ زرداری نے پاک فوج اور جنرل راحیل شریف کیلئے بے خوف قیادت اور مدبرانہ پرفارمنس کی بے لاگ تعریف کی ہے۔ یہ جرأت ہے اور سیاست بھی ہے۔ اس سے پہلے انہوں نے اینٹ سے اینٹ بجانے کا دعوی بھی کیا تھا۔ لوگ ان کیلئے نئی سیاسی حکمت عملی کیلئے کہہ رہے ہیں کہ انہوں نے یوٹرن لیا ہے۔ میں کہتا ہوں کہ انہوں نے اباوٹ ٹرن لیا ہے۔ یوٹرن اور اباوٹ ٹرن میں کیا فرق ہے۔ اب دیکھنا ہے کہ مسلم لیگ ن کی حکومت عملی کیا ہوتی ہے۔ اب آپ پوچھیں گے کہ حکومت عملی اور حکمت عملی میں کیا فرق ہے؟
کہتے ہیں جنرل راحیل کی مدت ملازمت کیلئے سیاسی قیادت قومی مفادات میں فیصلہ کرے۔ عسکری قیادت اور سیاسی قیادت میں کیا فرق ہے؟ بے شمار دل میں سوال ہیں اور جواب گم ہیں۔ صدر زرداری کہتے ہیں کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں عسکری قیادت کا تسلسل ضروری ہے۔ کیا واقعی آرمی چیف کے ایکسٹینشن لینے سے انکار کرنے سے عوام میں امید کی تڑپ مایوسی میں بدل گئی ہے۔ مگر انہوں نے تو یہ بھی کہا کہ میں اپنی ملازمت کے آخر تک رہوں گا۔ انہوں نے کسی تاریخ کا اعلان نہیں کیا؟ آرمی چیف کو اس طرح بات کرنے کی ضرورت کیا تھی۔ انہیں کوئی خدشہ تھا یا کوئی وہم تھا۔ خوف کا تعلق دوسرے سے اور وہم کا اپنے دل سے ہے۔ ایک جملہ بہت دلچسپ ہے نجانے کس نے کہا ہے۔ آرمی چیف جنرل راحیل شریف نواز شریف سے ایکسٹنشن نہیں لیں گے اور جائیں گے بھی نہیں؟ اس جملے پر غور کرنے کو جی چاہتا ہے۔ غور و فکر بڑا ضروری ہے۔ مگر اس جملے کو انجوائے کرنا زیادہ مزیدار ہے۔
میں نے کچھ مدت پہلے ایک جملہ لکھا تھا اور کسی ٹی وی چینل پر کہا بھی تھا جنرل راحیل شریف کو براہ راست نہیں آنا چاہیے۔ مگر سیاست کو تو راہ راست پر لانا چاہئیے۔ ایک اور جملہ بھی سننے کے قابل ہے۔ ہمارے ہاں سیاستدان جرنیل بننا چاہتے ہیں اور جرنیل سیاستدان بننا چاہتے ہیں۔ اس طرح دونوں ناکام ہوئے اور بدنام ہوئے۔ سیاستدان حکمران بنیں۔ جرنیل نہ بن جائیں کہ کوئی ان سے اختلاف بھی نہ کر سکے۔ جرنیل صدر پاکستان بن کر سیاستدان بن جاتا ہے پھر کوئی اس کا اعتراف بھی نہیں کرتا۔ سیاستدان کو ہر مقام پر سیاستدان ہونا چاہیے اور جرنیل کو ہر جگہ جرنیل ہی رہنا چاہیے۔
’’صدر‘‘ زرداری نے بیان تو دیا تھا۔ یہ کافی تھا تو پنجاب اسمبلی میں پیپلز پارٹی نے قرار داد کیوں جمع کرائی کہ جنرل راحیل کو ایکسٹنشن دی جائے۔ یہ بحث جنرل راحیل نے ختم کر دی تھی تو پھر یہ تماشا کیوں لگایا جائے ’’صدر‘‘ زرداری کے اس غیر متوقع مگر بہت سیاسی بیان کے جرات مندانہ اظہار کے بعد پھر مجھے ان کے صدارتی وقت کی کامیاب ترین سیاست اور حکومت میںیہ نعرہ یاد آنے لگا تھا۔
اک زرداری سب پر بھاری
مگر اسے اسمبلیوں میں لانے کا کیا مقصد ہے۔ تو اب کئی دوست سوچنے لگے ہیں کہ یہ جنرل راحیل شریف کو ’’پھوک دینے‘‘ کا معاملہ کیا ہے اور کیا اس طرح جنرل صاحب کو پھنسانے کا کوئی بہانہ ہے۔ بظاہر یہ لگتا ہے کہ یہ نواز شریف کو ڈسٹرپ کرنے کی ایک کوشش ہے۔ ہمارے ہاں کوشش اور سازش میں کوئی خاص فرق نہیں ہوتا۔ پنجاب اسمبلی میں ن لیگ اس قرار داد کی مخالفت بالکل نہیں کرے گی۔ ن لیگ تو خوش ہو گی کہ ہم نے جنرل صاحب کا امتحان لینے کی چال چلی تھی کہ وہ ایکسٹنشن چاہتے ہیں جبکہ یہ تو عوام چاہتے ہیں۔ حکام کیلئے تو کبھی پتہ نہیں چلا کہ وہ اصل میں کیا چاہتے ہیں۔ حکومت بچانے بڑھانے کے علاوہ ان کی کوئی چاہت سامنے نہیں آتی۔ کہتے ہیں کہ نواز شریف کی خواہش ہے کوشش ہے اور امید بھی ہے کہ 2018ء کے الیکشن کے بعد وزیر اعظم وہی ہوں۔ وہ تو چاہتے ہیں کہ فوج اور پولیس میں فرق نہ رہے۔ کراچی میں انہیں رینجرز کیلئے تو کسی حد تک کامیابی ہوئی ہے۔ اس میں بظاہر ن لیگ اور پیپلز پارٹی ایک دوسرے کے خلاف ہیں مگر اندر سے ایک ہیں۔ ’’صدر‘‘ زرداری کا تازہ بیان بھی پرسرار ہے۔ زرداری صاحب کی پوری زندگی لوگوں کیلئے ایک اچنبھے کا باعث رہی ہے۔
نواز شریف نے نیب کے حوالے سے درست بیان دیا ہے۔ یہ برحق ہے مگر برمحل ہے کہ نہیں۔ انہوں نے سب کو پریشان کر دیا ہے مگر ’’صدر‘‘ زرداری نے ایک زبردست بیان دے کے سب کو حیران کر دیا ہے۔ ہمارے ہاں حیرانی اور پریشانی میں بھی فرق مٹ جاتا ہے۔ پنجاب اسمبلی میں قرار داد لانے کے بعد حیرانی پریشانی میں بدل جائے گی۔ یہ قرار داد ’’صدر‘‘ زرداری کے مشورے کے بغیر لائی گئی ہو گی۔ کراچی میں پیپلز پارٹی، فوج اور رینجرز کے کردار سے ثابت ہے ڈاکٹر عاصم کے بعد عزیر بلوچ کی گرفتاری ان کیلئے بہت بڑی بے قراری کا باعث بنی ہوئی ہے۔ فوج نے دہشت گردوں اور ان کے سہولت کاروں کی کمر توڑ دی ہے۔ مگر سیاستدانوں میں کئی لوگوں کی کمر میں خواہ مخواہ درد شروع ہو گیا ہے اور کمر درد جاتا نہیں ہے۔ اس کا کوئی خاص علاج نہیں ہے۔
میرا مشورہ نواز شریف کو یہ ہے کہ ان کے پاس چودھری نثار علی خان ہے۔ وہ سیاسی اور عسکری قیادت کے حوالے سے یکساں طرز سیاست جانتے ہیں۔ ان کے دونوں طرف رابطے ہیں۔ نواز شریف کسی کمپلیکس میں آ کے متنازعہ نہ بنیں۔ جبکہ یہ کوشش’’صدر‘‘ زرداری نے کی، یہ الگ بات ہے کہ دونوں کی سانجھی سیاست سے یہ بیان آیا ہے مگر اس میں بہت کچھ سیاسی حکومتوں کے حساب سے ناقابل بیان ہے۔ کئی باتوں کے بیان کرنے سے گڑ بڑ زیادہ ہو کر گٹر بگڑ ہو جاتی ہے۔ چند دن انتظار کر لینے میں بھی کوئی حرج نہیں ہے مگر انتظار کرنا اور صبر کرنا ہمیں آتا نہیں۔
اب لوگ ان ’’معصوم‘‘ لوگوں کی تلاش میںنکلے ہوئے ہیں۔ جن کو نیب خواہ مخواہ تنگ کرتا ہے۔ یہ بات بہت پریشان کن ہے کہ نواز شریف نے کن معصوم لوگوں کی طرف اشارہ کیا ہے۔ وہ محروم لوگوں سے تو واقف ہی نہیں ہیں۔ محروم لوگ معصوم کہاں ہوتے ہیں؟ وہ تو مظلوم بھی ہوتے ہیں سب سے بڑی بات یہ ہے کہ وہ محکوم بھی ہوتے ہیں۔ حاکم جو بھی ہو وہ محکوم ہی رہتے ہیں۔ ان پر وہ بھی حکم چلا سکتا ہے جو حاکم نہیں ہوتا۔ نیب بھی پولیس کی طرح صرف کمزور آدمیوں پر کارروائی کرتا ہے۔ کیا کسی کرپٹ آدمی کو سزا ملی ہے؟
ایک دن اس کو شک ہوا کہ اس کا ملازم دودھ میں ملاوٹ کرتا ہے یعنی کرپٹ ہے۔ اس نے اس کی نگرانی کیلئے ایک اور ملازم رکھ لیا۔ ملاوٹ یعنی کرپشن میں اضافہ ہو گیا۔ کرپشن کے خاتمے کیلئے ایک محکمہ بنا تھا انٹی کرپشن۔ اس محکمے کی کارکردگی اور کامیابی ملاحظہ کریں کہ اسے ’’آنٹی کرپشن کہا جانے لگا۔ پوچھا گیا کہ نیب کا دوسرا قافیہ کیا ہے۔ کہا گیا نیب کا کافیہ تو عیب ہی ہو سکتا ہے۔