یہ بچے بھی ہمارے ہی چمن کے پھول ہیں ۔۔۔
تھر کے صحرا میں موت کا رقص جاری ہے اور بھوک ، بیماری ابھی تک دو سو سے زائد بچوں کی زندگی نگل چکی ہے ۔ پچھلے برس بھی ساڑھے تین سو سے زیادہ نومولود اور چھوٹی عمر کے بچے غذائی قلت اور صحت کی ناکافی سہولیات کی وجہ سے موت کے منہ میں چلے گئے تھے اب بھی حالات بہت ابتر ہیں ، جب سے یہ نیا سال شروع ہوا ہے آئے روز میڈیا پہ تھر کے حوالے سے خبریں آتی رہتی ہیں ۔ لیکن حکومتی ایوانوں میں اس قدر بے حسی چھائی ہے کہ ایسے لگتا ہے کہ اس حکومت کیلئے کوئی مسئلہ ہی نہیں ہے خواہ مرکزی ہو یا صوبائی ۔ وزیر اعلی صاحب سے کچھ دن قبل جب اس حوالے سے سوال کیا گیا تو موصوف اس عجب شان بے نیازی سے بولے کہ اگر کوئی تھر میں بچہ مر جائے تو کیا مجھے الہام ہو گا ۔
اگر تھر کے معاملے پر تمام بڑی سیاسی جماعتوں کی کارکردگی دیکھی جائے تو مایوسی ہی مایوسی ہے ۔ پی پی پی حکومت کا سب سے پہلے جائزہ لیں تو سند ھ اسمبلی کے اجلاسوں میں انکی رونقیں ماند نہ پڑیں کبھی شعرو شاعری کے مقابلے نظر آئے تو کبھی حکومتی اور اپوزیشن ارکان کے درمیان تلخ جملے ، ذو معنی گفتگو سنائی دیتی رہی اور اسی ماحول میں سندھ حکومت نے اپنے حق میں کئی متنازعہ بل بھی پاس کروا لئے لیکن تھرمیں مرنے والوں کے حوالے سے کوئی مذمتی قرارداد ، کوئی تشویش کا اظہار کوئی سنجیدگی نظر نہیں آئی ، جن کا بھٹو آج بھی زندہ ہے لیکن ننھے پھول مر جھا گئے ہیں اور نجانے یہ بے حسی کتنی اور زندگیوں کے چراغ بجھا دے گی ۔ پیپلز پارٹی کی حکومت کا اندرون سندھ رہنے والوں کے مسائل کے حوالے سے سنگدلانہ رویہ تو اب کوئی نئی بات نہیں ہے ۔ ان کی تو ترجیحات ہی ہمیشہ محض الفاظ کی سیاست کرنے اور پیسہ بنانے سے کبھی آگے نہیں بڑھ سکیں ۔ کبھی سندھ میں رینجرز کے اختیارات ان کیلئے زندگی موت کا مسئلہ بن جاتے ہیں اور کبھی سیاسی محاذ آرائی پہ ساری نظر مرکوز ہوتی ہے ۔ زرداری صاحب سے حالیہ منسوب بیان جو انہوں نے چیف آف آرمی سٹاف کے حوالے سے دیا اور بعد میں پھر اس سے انحراف بھی کر لیا اس پہ پی پی پی کی حکومت ایسے جاگی کہ لگتا ہے سندھ حکومت کیلئے سب سے بڑا مسئلہ یہی ہے کہ زرداری صاحب نے بیان دیا یا نہیں ، باقی تھر میں بچے مرتے ہیں تو مرتے رہیں ۔
دوسری طرف سندھ میں دوسری بڑی جماعت ایم کیو ایم جو کہ اپنے آپ کو عوامی جماعت کہتی ہے ۔ انہیں تھر میں مرنے والے بچوں سے زیادہ ایک طرف تو کبھی مئیر کے اختیارات نہ ملنے کا دکھ کھائے جا رہا ہوتا ہے تو کبھی دوسری طرف اپنے قائد کی تقریر اور تصویر پر پابندی کیلئے بھوک ہڑتال کر کے بیٹھ جاتے ہیں لیکن تھر کیلئے بات کرنے کا ان کے پاس وقت نہیں ہے ۔ سندھ کی قوم پرست جماعتوں کی بات کی جائے جو کہ اپنے آپ کو سندھ کا اصل وارث سمجھتے ہیں وہ بھی تھر میں بچوں کی ہلاکت کے معاملے پر ایسے خاموش ہیں جیسے تھر پاکستان ، سندھ کا حصہ نہیں بلکہ ایتھوپیا کا ہو ۔
صوبائی حکومت کے کردار سے نکل کہ اب اگر مرکزی حکومت کے کردار پر بھی ایک نگاہ ڈال لی جائے تو یہاں بھی بے حسی رنگ جمائے بیٹھی ہے ۔2013 ء کے الیکشن میں ہر پارٹی کو ایک ایک صوبے میں حکومت دیکر اس طرح خاموش کروا دیا گیا کہ کسی دوسرے صوبے میں کیا ہو رہا ہے اس سے کسی کو سروکار ہی نہ رہے ۔ اپنے کرتوتوں کو دوسرے صوبوں کے تقابل میں چھپاتے رہیں ۔ ایسا ہی کچھ حال ہماری وفاقی حکومت کا ہے جو کہنے کو تو وفاق کی علامت ہے لیکن ہمارے وزیر اعظم صاحب پنجاب سے باہر کے حالات سے کم ہی باخبر ہوتے ہیں تھر میں بھوک ، بیماری سے بچے زندگی کی بازی ہار رہے ہیں تو کیا ہوا ؟ انکی تو ترجیح میٹرو بس ، اورنج لائن اور لاہور کو پیرس بنانے تک محدود ہے ۔ ملک میں اپوزیشن کرنے والی واحد جماعت اور نیا پاکستان بنانے کا دعوی کرنے والی پی ٹی آئی کی حکومت بھی اس حوالے سے اتنی ہی لاتعلق نظر آ تی ہے جتنی کہ دوسری جماعتیں ۔ ان تمام حالات کے باوجود حکومتوں کے خوشامدی روز میڈیا پہ کروڑوں لوگوں کے سامنے نہ صرف جھوٹ بولتے ہیں بلکہ لوگوں کے جذبات کا اس بیدردی سے مذاق اڑا یا جاتا ہے کہ دل میں بے بسی اور لاچارگی کا احساس اور بڑھ جاتا ہے ۔ تھر پار کر جہاں خوشکسالی ، بھوک اور بیماری نے زندگی کی سب رعنائیوں کو ختم کر دیا ہے ۔ ہر طرف موت کا سناٹا ہے ۔ تھر دنیا کا نواں بڑا صحر ا ہے اسکو اگر جغرافیائی اعتبار سے دیکھا جائے تو انتہائی جنوب مشرق میں ہمیں نظر آتا ہے ۔ انتظامی طور پر یہ علاقہ پہلے ضلع تھرپارکر کہلاتا تھا، پھر اسے تین اضلاع میرپورخاص، عمرکوٹ اور تھرپارکر میں تقسیم کردیا گیا۔ میرپورخاص بارانی ضلع ہے، یہاں کی زمینیں نہری پا نی سے سیراب ہوتی ہیں۔ عمر کوٹ میں د ونوں طرح کی زمینیں ہیں ، ریتیلی بھی اور بارانی بھی۔ ا لبتہ ضلع تھرپارکر میں صرف ریت یا کہیں کہیں مٹی کے ٹیلے نظر آتے ہیں ۔ زندگی کی بنیادی سہولیات نہ ہونے کے برابر ہیں ۔ تھرپارکر میں زیرزمین پا نی انتہائی نمکین ہے جوکہ پینے کے بھی قابل نہیں ہے وہ بھی بہت کم جگہوں پر کافی گہرائی میں ملتا ہے ۔ تھرپارکر کا علاقہ جس کی آبادی 15 لاکھ کے قریب ہے جس کا ایک بڑا حصہ عورتوں اور بچوں پر مشتمل ہے ۔ زندہ رہنے کے حق سے محروم یہ لوگ ہم سب کی طرف سوالیہ نظروں سے دیکھتے ہیں کہ آخر ان کا کیا قصور ہے ؟ان کی بے بسی کی انتہا دیکھیئے کہ یہ لوگ اپنے بچوں کی کلکاریاں سننے کی بجائے بھوک سے بلکنے کی آوازیں سنتے اور اپنے سامنے سسک سسک کر زندگی کی بازی ہارتے ہوئے دیکھنے کے باوجود ان کیلئے کچھ کر نہیں پاتے۔ صوبائی حکومت نے پچھلے سال جب تین سو سے زیادہ بچے موت کے منہ میں چلے گئے اور میڈیا پہ بہت شور مچا تو 60ہزار گندم کی بوریاں بھجوائیں جو کہ انسانوں کی بجائے چوہوں کی خوراک بنتی رہیں ، اس طرح سے مختلف ورلڈ این جی اوز کی جانب سے منرل واٹر کی بھجوائی گئی بوتلیں بھی بعد میں حکومتی عہدے داروں اور سرکاری افسروں کے گھروں سے برآمد ہوئیں ، 20 ارب کے خصوصی پیکج کا اعلان بھی کیا گیا جسکے بارے میں حکومتی ترجمان کا دعوی ہے کہ وہ تھر میں یہ پیسہ لگا چکے ہیں بلکہ اب تک وہاں کی عوام پر مختلف فلاحی پروگراموں کی مد میں 25 ارب خرچ ہو چکے ہیں ۔ اب کہاں خرچ کئے گئے اس کا جواب ڈھونڈنے کیلئے زیادہ محنت کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ تھر کے لوگوں کی کہانی حکومت کی کارکردگی کا منہ بولتا ثبوت ہیں ۔
تھر میں موت کے سائے گہرے ہوتے جا رہے ہیں اور غذائی قلت ، بیماری ، بھوک سے بلکتے بچوں کی اموات میں آئے روز اضافہ ہو رہا ہے ۔ موسم کی نامہربانی بھی اپنے عروج پر ہے اور طبی سہولیات کا بھی شدید فقدان ہے ۔ ایسے میں زندگی موت سے لڑتے یہ لوگ ہماری امداد کے شدید منتظر ہیں۔ ہمیں سب کو ان کی مدد کے لئے آنا ہو گا کیونکہ انکے زخموں پہ مرہم رکھنے والا کوئی نہیں ۔ نواز شریف صاحب کے پاس اس قوم کے تمام مسائل کا حل میٹرو بسیں چلانے اور سڑکوں کی تعمیر میں ہے ۔ کاش کہ کراچی میں میٹرو کے افتتاح کیلئے آنے والے وزیر اعظم صاحب ایک چکر تھر کا بھی لگا لیتے آخر کو موت کی آ غوش میں جانے والے یہ ننھے بچے بھی تو ہمارے ہی چمن کے پھول ہیں ۔