نظریاتی کانفرنس میں تین دن اور نظریاتی پکنک
مجید نظامی نے 2008ءمیں پہلی نظریاتی کانفرنس کے ذریعے اس سلسلے کا آغاز کیا۔ میں نے اسے نظریاتی کانفرنس اسی لئے کہا ہے کہ مجید نظامی نے نظریہ پاکستان ٹرسٹ کی طرف سے سمر سکول کو نظریاتی سمر سکول کا نام دیا تھا اور یہ نظریاتی ثمر سکول بن گیا۔ اس کے ثمرات اتنے پھیل گئے کہ اب داخلے کے وقت بچوں کے والدین کا ایک ہجوم عاشقان ہوتا ہے۔ یہ دونوں کارنامے آج بھی جاری و ساری ہیں۔ شاہد رشید نے مجید نظامی کی عقیدتوں کی ایک تاریخ لکھ دی ہے۔ 8ویں نظریاتی کانفرنس میں ایک شاندار نظریاتی میلے کا سماں نظریہ پاکستان ٹرسٹ میں منعقد ہوا۔ تین دن کے لئے ایسا شاندار اجتماع میں نے کم کم کہیں دیکھا ہے۔ پورے ملک سے تحریک پاکستان کے کارکنان اساتذہ پروفیسرز، خواتین اور دانشوران آئے۔ شاہد رشید کی محنتوں سے بیرون ملک اور اندرون ملک جو پاکستان فورمز بنائے گئے ہیں ان کی نمائندگی کرنے والے خواتین و حضرات بھی کثیر تعداد میں موجود تھے حیرت ہے کہ سب لوگ اپنے خرچے پر آئے اور شہر میں اپنے طور پر رہائش پذیر ہوئے۔
البتہ وزیراعلیٰ شہباز شریف کے کہنے پر سٹی گورنمنٹ نے بھرپور تعاون کیا اور دوپہر کا کھانا بہت عمدگی سے فراہم کیا گیا۔ ہمیشہ شہباز شریف خود آتے ہیں مگر اس سال انہوں نے اپنی نمائندگی کے لئے اپنے صاحبزادے حمزہ شہباز شریف کو بھیجا جنہوں نے بہت اعلیٰ خطاب کیا۔ جو تعاون شہباز شریف کی طرف سے نظریہ پاکستان ٹرسٹ کو حاصل ہے حمزہ نے اس میں اپنے آپ کو بھی شامل کیا۔ حمزہ شہباز اپنے بزرگوں کے مشن کو پورا کرنے کے لئے سرگرم ہیں۔
میں شاہد رشید اور ان کی ٹیم کی طرف سے شہباز شریف‘ حمزہ شہباز‘ خواجہ سعد رفیق‘ ڈی سی او کیپٹن (ر) محمد عثمان چیف پبلک ریلیشنز افسر ضلعی حکومت ڈاکٹر ندیم الحسن اور ڈائریکٹر جنرل اوقاف ڈاکٹر طاہر رضا بخاری کا شکرگزار ہوں۔
ہم عرفان صدیقی کے بھی شکرگزار ہیں۔ وہ خاص طور پر اسلام آباد سے تشریف لائے اور زبردست خطاب کیا۔ وہ وفاقی مشیر برائے قومی تاریخ اور ادبی ورثہ ہیں اور اس حوالے سے بھرپور سرگرمی سے اور جذبے سے کام کر رہے ہیں۔ جبکہ اپنی گفتگو میں شاہد رشید نے ایوان قائداعظم کی عنقریب تکمیل کی خوشخبری سنائی۔ یہ مجید نظامی اور ان کے ساتھیوں کا خواب ہے۔ ایک شاندار عمارت میں چار منزلہ لائبریری ہے اور تین منزلہ گیلری ہے۔
عرفان صدیقی نے ان کی تزئین و آرائش کیلئے مکمل اور بھرپور تعاون کا یقین دلایا ہے۔ شہباز شریف نے آغاز ہی سے ایوان قائداعظم کےلئے عملی طور پر تعاون کیا۔ نظامی صاحب سے شہباز شریف کی محبت بے مثال ہے۔ ان کی وفات پر نظامی کی صاحبزادی رمیزہ نظامی کے پاس تعزیت کیلئے حکمرانوں میں سے سب سے پہلے وہی پہنچے اور پھر ان کے پاس کئی بار آئے۔ رمیزہ نظامی نوائے وقت‘ نیشن‘ وقت نیوز اور نوائے وقت گروپ کی تمام مطبوعات کیلئے بھرپور محنت کر رہی ہیں۔ اس کا ذکر خواجہ سعد رفیق نے بھی کیا۔ انہوں نے مجید نظامی کو یاد کیا اور رمیزہ نظامی کو بھی خراج تحسین پیش کیا۔ وزیر تعلیم رانا مشہود نے بھی خطاب کیا۔
جب کانفرنس کے آغاز میں مجید نظامی کا خطاب سنوایا گیا جو انہوں نے پہلی کانفرنس میں کیا تھا جسے پالیسی خطاب سمجھنا چاہئے، لوگ آبدیدہ ہو گئے۔ یوں لگا کہ مجید نظامی پوری طرح موجود ہوں۔
نظریہ پاکستان ٹرسٹ کی ہر تقریب میں شاہد رشید ان کا ذکر کرتے ہیں اور مقررین بھی انہیں یاد کرتے ہیں۔ ایک جید دانشور شاعر ادیب سکالر احسان اکبر بھی اسلام آباد سے تشریف لائے تھے۔ ان کی تقریر کا عنوان تھا۔ پاکستان کی تقدیر کیا ہے۔ ممتاز قانون دان احمد اویس نے بھی خطاب کیا۔
ایک ولولہ انگیز خطاب علامہ احمد علی قصوری کا بھی تھا۔ انہوں نے اتحاد بین المسلمین کے حوالے سے گفتگو کی۔ ہر شخص کے دل کی بات قصوری صاحب کی زبان سے ادا ہوئی۔ وہ عاشق رسول ہیں۔ ان کی گفتگو دلوں میں اتر جانے والی ہوتی ہے۔ یاد رہ جانے والا خطاب ڈائریکٹر جنرل اوقاف ڈاکٹر سید طاہر رضا بخاری نے کیا کانفرنس کے 9 سیشن ہوئے اور 16 سو سے زیادہ خواتین و حضرات نے شرکت کی جس میں لاہور کے باہر سے دوسرے شہروں سے آنے والوں اور آنے والیوں کی تعداد زیادہ تھی۔ سب سے مثالی سیشن گروہی مباحثے کے حوالے سے ہوا جس میں بہت سے لوگوں نے کئی گروپوں میں تقسیم ہو کے شرکت کی اور بے دھڑک گفتگو کی۔ ایک گروپ کی صدارت میں نے کی۔ وہاں خواتین پروفیسروں کی تعداد زیادہ تھی۔ ایسی مربوط اور علمی باتیں کی گئیں کہ میں حیران رہ گیا کئی دوستوں کی صدارت میں بہت خوبصورت باتیں ہوئیں بشریٰ رحمان، ناصرہ جاوید اقبال، مہناز رفیع، آصف بھلی، عزیز ظفر آزاد نے بھی مختلف گروپوں کی صدارت کی۔ سب سے بڑی بات یہ ہے کہ چیئرمین نظریہ پاکستان ٹرسٹ صدر محمد رفیق تارڑ اپنی پیرانہ سالی اور علالت کے باوجود تینوں دن تشریف لائے۔ ڈاکٹر رفیق احمد نے بھی بہت دلچسپی لی وہ تو کانفرنس کے اصل میزبان تھے۔ برادرم ، فاروق الطاف بہت سرگرمی سے ہر معاملے میں تعاون کیا۔ ہم چیف جسٹس محبوب احمد کے خاص طور پر شکر گزار ہیں کہ انہوں نے ایک سیشن کے لئے صدارت کی اور ساری صورتحال کی نگرانی کی۔ بارونق کانفرنس کی کامیابی کا اندازہ لگائیں کہ ان دنوں میں مادر ملت پارک بھی شاد اور آباد نظر آئی۔ خواتین و حضرات نے بڑی بے تکلفی سے تین دن یہاں گزارے۔ نوائے وقت کی طرف سے ڈپٹی ایڈیٹر اور کالم نگار سعید آسی نے اور دی نیشن کے ایڈیٹر اور دانشور سلیم بخاری نے خطاب کیا۔ ایک بات جو خاص طور پر قابل ذکر ہے کہ اس مرتبہ مشائخ کرام نے بڑی گرمجوشی سے کانفرنس میں شرکت کی۔ صاحبزادہ ولید احمد سجادہ نشین شرقپور شریف، صاحبزادہ سلطان احمد علی، پیر جماعت علی شاہ کے پوتے سجادہ نشین پیر منور حسین جماعتی، صاحبزادہ فاروق حسنین آف چورہ شریف، پیرزادہ مانکی شریف اور کشمیری روحانی پیشوا مولانا محمد شفیع جوش خاص طور پر تشریف لائے اور اس نظریاتی کانفرنس کی روحانی کیفیتوں کو تقویت پہنچائی۔ معروف خاتون ثریا خورشید تینوں دن تشریف لائیں مگر انہوں نے تقریر نہیں کی۔ ڈاکٹر پروین خان نے تقریر کی۔ کئی لڑکیاں سارے ٹرسٹ میں گھومتی رہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہم نے تین دن نظریاتی پکنک بھی منائی۔