• news
  • image

ڈبہ سکینڈل

میرے وطن کے باسیوں کی یاداشت بڑی کمزور ہے چھوٹی سے چھوٹی بات یاد رکھنا تو درکنار اس دیس میں بسنے والے اپنی آزادی حاصل کرنے کی اس تاریخ کو بھی یاد نہیں رکھ سکے جو زندہ قوموں کی اساس ہوتی ہے یقین جانیے اگر ہم صرف اس تاریخ کو ہی بطور ورثہ گلے سے لگا کر رکھتے تو آج ہمیں یہ دن نہ دیکھنا پڑتا کہ ہمیں ہر روز اک نِت نئے المیے سے دوچار ہونا پڑتا اور دنیا کی دیگر اقوام ہمیں ایک قوم کی بجائے ہجوم سے تعبیر کرنے جیسے طعنوں سے نوازتیں۔
یہ زیادہ دور کی نہیں ابھی کل ہی کی بات ہے کہ پاکستان کی تاریخ میں زرداری دور کے اقتدار کا سورج نصف النہار سے کچھ آگے اپنی منزلیں طے کر چکا تھا کہ یکایک میمو گیٹ کے نام سے ایک سکینڈل پاکستان کے سیاسی ا±فق پر نمودار ہوا اور دیکھتے ہی دیکھتے اس نے ایک ایسے طوفان کی صورت اختیار کر لی کہ لگتا تھا کہ یہ طوفان زرداری اقتدار کے در و دیوار ہلا کر رکھ دے گا۔ ایسے لگ رہا تھا کہ ملک پر ایٹمی یلغار سے بھی بڑی کوئی آفت ان پڑی ہے۔ دیکھنے والوں نے دیکھا کہ کس طرح اس وقت کا اپوزیشن لیڈر کالا کوٹ پہن کر ملک کی اعلی ترین عدالت میں اس کیس کی پیروی کرنے پہنچ گیا بات صرف یہاں تک نہ رکی معاملے کی شدت کا اظہار کرتے ہوئے اس وقت کی عسکری قیادت نے سول حکومتی قیادت سے اس قدر دوری اختیار کر لی کہ اس حقیقت کے ٹھوس شواہد موجود ہیں جب حکومتی نہیں ریاستی سطح پر ہونیوالی کئی تقریبات میں عسکری قیادت نے اپنی شرکت کو دور رکھ کر حکومتی اکابرین کو اپنی تشویش کی سنجیدگی سے اگاہ کیا۔ واقفانِ حال تو اس سے بھی بڑھکر پریڈ گراونڈ کے قریب ہونیوالی پیشرفت سے بھی آگاہی رکھتے ہیں لیکن پھر سب نے دیکھا کچھ ان دیکھی قوتوں کی طلسماتی چالوں نے اپنے حسنِ ذوق کے کمالات کچھ اس طرح دکھائے کہ وہ کردار جو ہر خاص و عام کی نظر میں اس سانحے کا مرکزی کردار نظر آرہا تھا اس ملک کی اعلی ترین عدالت کی اجازت سے نہ صرف بیرونِ ملک سدھار گیا بلکہ آج تک عدالت طلبی کے ہر پروانے کو ردی کے ٹکڑے سے زیادہ اہمیت نہ دیکر وہ پوری قوم کا تمسخر اڑا رہا ہے۔
ان یادوں کی پٹاری کھولنے کو مقصد اپنے ا±ن قائدین اور انکے علاوہ پیپلز پارٹی کی اصل اساس ا±ن جیالوں جو آجکل سابق صدر آصف علی زرداری کے پاکستانی افواج اور انکے سپہ سالار جنرل راحیل شریف کے متعلق دیئے گئے ایک حالیہ بیان پر ہیجانی اور اضطرابی کیفیت میں مبتلا پائے جاتے ہیں کہ یہ بیان کدھر سے آیا ہے ان کیلئے عرض ہے کہ میمو گیٹ سکینڈل کی طرح اس سکرپٹ کا رائٹر بھی کوئی اور نہیں انکی اپنی ہی صفوں کے دو پیش اماموں میں سے ایک ہے جسے پوری ق±ل ھ±واللہ بھی پڑھنی نہیں آتی۔ مثل مشہور ہے کہ "کہاں راجہ بھونگ اور کہاں گنگو تیلی " حالات کی ستم ظریفی دیکھیے کہاں پیپلز پارٹی کا بانی شہید ذولفقار علی بھٹو اور اسکے 1970ءوالے نظریاتی ساتھی اور کہاں آجکل کی پیپلز پارٹی۔ بس اس سے زیادہ لکھنے کو میرا قلم اجازت نہیں دیتا سمجھنے والے خود سمجھ جائینگے۔
قائدین کو باور کراتا چلوں کہ پاکستانی سیاست میں یہ ل±کن مِٹی کا کھیل کوئی نیا نہیں مجھے یاد پڑتا ہے کہ ستر اور اسی کی دہائیوں میں فلم انڈسٹری میں چربہ سازی بڑے زوروں پر ہوتی تھی اور چربہ فلموں کیلئے ایک مخصوص اصطلاح استعمال ہوتی تھی جسے "ڈبہ" کے نام سے پکارا جاتا تھا تو وہ دوست جو اس بیان پر کافی مضطرب دکھائی دیتے ہیں ان کیلئے عرض ہے کہ یہ بیان میمو گیٹ سکینڈل کا چربہ ڈبہ سکینڈل ہے فرق صرف یہ ہے وہ فوج کو بدنام کرنے کیلئے تھا یہ فوج کی خوشنودگی حاصل کرنے کیلئے گھڑا گیا ہے۔ تخلیق کار اور کردار وہی ہیں۔ زیادہ دور جانے کی ضرورت نہیں پچھلے دو تین سالوں کو ہی لے لیں ان سالوں میں میمو گیٹ سکینڈل، شاہ ر±خ جتوئی قتل کیس ،ماڈل ٹاون سانحہ، ایگزیکٹ ڈگری سکینڈل ، زین قتل کیس ، ایان علی کیس ، ٹونی بٹ کرنسی سمگلنگ کیس ، قصور جنسی سکینڈل جیسے کیسے کیسے بیسیوں واقعات رونما نہیں ہوئے جن کو ہم نے اپنی لیڈنگ سٹوری تو بنایا لیکن ازحد افسوس کے ساتھ مجھ جیسے لاکھوں سچائی کی تلاش کے دعویداروں نے کبھی بھی ان سٹوریوں کو فالو اپ نہیں کیا اور یہ کوشش نہیں کی یہ سٹوریاںکہاں اپنے انجام کو پہنچیں۔ یقین جانیے اگر شاہ رخ جتوئی کیس اپنے انجام کو پہنچ جاتا تو زین قتل نہ ہوتا۔ اگر قصور جنسی سکینڈل اپنے منطقی انجام کو پہنچ جاتا تو روزانہ بدفعلی کے بیسیوں کیس رپورٹ نہ ہوتے۔ اگر سانحہ ماڈل ٹاون کے کرداروں کا تعین ہو جاتا تو پی آئی اے ہڑتال کے دوران دو شہادتیں نہ ہوتیں اگر میمو گیٹ سکینڈل کا مرکزی کردار بے نقاب ہو جاتا تو یہ ڈبہ سکینڈل دہرایا نہ جاتا۔ اس حوالے سے قارئین کی دلچسپی کیلئے ایک قصہ بیان کرتا چلوں۔ ایک چالباز بیوی اپنی ساس کو نیچا دکھانے کیلئے بیماری کا بہانہ بنا کر خاوند سے کہنے لگی کہ کسی تعویذ گنڈے والے بابے نے ا±سے تجویز کیا ہے کہ اگر اسکی ساس اپنا سر منڈوا کر منہ کالا کر کے گدھے پر بیٹھ جائے تو وہ صحت یاب ہو سکتی ہے۔ خاوند بہت سمجھدار تھا یہ سن کر وہ گھر سے نکلا اور سیدھا اپنی بیوی کی ماں کے پاس پہنچ گیا اور ا±سے بتایا کہ اسکی بیٹی بڑی بیمار ہے اور بابے نے اسکا یہ علاج تجویز کیا ہے کہ اگر خاتون کی ماں اپنا سر منڈوا کر منہ کالا کر کے گدھے کی سواری کر لے تو اسکی بیٹی صحت یاب ہو سکتی ہے۔ ماں بیچاری ممتا سے مجبور فوراً راضی ہوگئی کچھ دیر بعد وہ گدھے پر بیٹھی اپنی بیٹی کے گھر طرف آ رہی تھی بیٹی سمجھی کہ اسکا خواب پورا ہوگیا ساس آرہی ہے اس نے دور سے نعرہ لگایا " ویکھ رناں دے چالے سِر م±نے تے منہ کالے" جس پر خاوند نے بلند آواز کہا " ویکھ یارآں دی پھیری ماں تیری اے کہ میری"۔ دوستو بے شک نوے کی دہائی کی سیاست میں حکومت اور اپوزیشن کا کردار میاں بیوی کے اس غلیظ کردار کی چغلی کھاتا نظر ٓاتا ہے جب انتقام اور مفادات انسان کو اس حد تک اندھا کر گئے کہ تہذیب و تمدن کی ساری حدود کو بھلا کر ا±نھوں نے ایک دوسرے کے والدین کو گریبانوں سے پکڑ کر گھسیٹنے سے بھی دریغ نہیں کیا۔ ڈر اس بات کا ہے کہ اللہ نہ کرے کہ اس طرح کے واقعات دوبارہ دہرائے جائیں۔

طارق امین۔۔۔۔ تیسری آنکھ

طارق امین۔۔۔۔ تیسری آنکھ`

epaper

ای پیپر-دی نیشن