• news
  • image

چٹھہ صاحب جان ہار دینا.... الیکشن نہ ہارنا

ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ میں چوہدری انور عزیز کے ساتھ چار پائی پربیٹھا خوش گپیوں میں مصروف تھا۔ چوہدری صاحب تب پیپلز پارٹی میں تھے اور میں ایم آر ڈی کی تحریک میں گرفتاری دے کر کوٹ لکھپت جیل میں بیرک میں ہی بند تھے ۔ ہم دونوں کے علاوہ سابق صدر پاکستان فاروق لغاری اور عوامی نیشل پارٹی کے فاروق قریشی بھی یہیں بند تھے۔ دوپہر کے وقت ہم چارپائی نکال کر چھاﺅں میں بیٹھ جاتے اور وقت گزارنے کی خاطر زمانے بھر کی شاعری ادب، سیاست، لطائف، اور اپنے اپنے ذاتی واقعات باہم سناتے رہتے ۔ Bکلاس کے قیدی ہونے کی حیثیت سے بھی چونکہ ہمیں ایک مشقتی دستیاب تھا اس لئے چائے کا دور بھی چلتا رہتا۔ ایک دفعہ چوہدری انور عزیز نے مجھے اپناواقعہ سنایا کہ جب وہ گورنر مغربی پاکستان نواب آف کالا باغ کی مرضی کے خلاف آزاد حیثیت میں صوبائی اسمبلی کا الیکشن لڑرہے تھے تو آغاز میں ایک بوڑھا آدمی ان کے ڈیرے پر آیا اور کہا کہ "میں تمھارے باپ کا دوست ہوں تم اگر کچھ "چیز" ہو گے تو شکر گڑھ یا ہمارے لئے ۔ نواب آف کالا باغ کے نزدیک تم ایک کمزور آدمی ہو ۔ یہ الیکشن لڑنے کا فیصلہ تم نے بہت غلط کیا ہے ۔ مجھے خطرہ ہے کہ تمھیں اس کا خمیازہ بھگتانہ پڑے گا ۔ چوہدری صاحب نے کہا کہ چاچا جی اب تو یہ غلطی ہو گئی کیا کروں۔ تو اس شخص نے کہا کہ اس غلطی کا ازالہ اب ایک صورت میں ہی ہو سکتا ہے کہ یا جان ہاردو یا الیکشن جیت جاﺅ۔ تیسری کوئی صورت نہیں کھوکھر صاحب اس کے بعد پھر میں نے دن دیکھا نہ رات ۔گاڑیوں وغیرہ کےلئے تو میرے حلقہ انتخاب میں گزرنے کی سڑکیں بھی نہیں تھیں ۔ گھوڑوں پر میں نے ساتھیوں سمیت کاٹھیاں ڈال لیں اور گاﺅں گاﺅں گھومنا شروع کر دیا ۔ چوہدری انور عزیز نے بتایا کہ مجھ سمیت میرے کئی برادری والوں اور چاہنے والوں پر ناجائز مقدمات بنانا شروع ہوگئے۔ مگر اللہ کی مدد شامل حال رہی کہ صمدانی صاحب سیالکوٹ کے ڈسڑکٹ اینڈ سیشن جج تھے۔ جب بھی کسی ساتھی پر مقدمے کے اندراج کا علم ہوتا یا پولیس گرفتارکرنے آتی تو ہم راتوں رات راستے بدل بدل کر سیشن ہاﺅس سیالکوٹ پہنچ جاتے اور صمدانی صاحب اُسی وقت ہماری ضمانتیں منظور کر لیتے اور یوں اللہ کی مدد کے علاوہ اللہ کی زمین پر اسکے نائب ایک منصف کی وجہ سے مجھے الیکشن میں کامیابی نصیب ہوئی تو میرے سارے گناہ اور سرکار کی طرف سے درج مقدمات گویا کسی قبرستان میں دفن ہوگئے۔ چار پائی ایک طرف کھینچتے ہوئے چوہدری انور عزیز نے کہا کہ کھوکھر صاحب " جیت ۔ جیت ہی ہوتی ہے اس کا کوئی نعم البدل نہیں یہ سارے گناہ اور جرائم دفن کر دیتی ہے "۔
یہ سارا واقعہ مجھے کئی دہائیوں بعد اس لیے یاد آیا کہ آج کل گوجرانوالہ میں حلقہ N.A 101 میں ضمنی انتخابات ہونے جارہے ہیں ۔ اگر چوہدری انور عزیز کوٹ لکھپت جیل میں میر ے ہمراہ تھے تو چوہدری حامد ناصر چٹھہ MRDکی تحریک سے بھی قبل ڈسڑکٹ جیل گوجرانوالہ اور ڈسڑکٹ جیل جھنگ میں میرے ہمراہ قید تھے۔ " پاکستان قومی اتحاد " کی تحریک میں ذوالفقار علی بھٹو کےخلاف تحریک چلانے کے جرم میں ان کے ساتھ چوہدری محمود بشیر ورک ،علامہ عزیز انصاری اور دیگر ڈیڑھ سو کے لگ بھگ ساتھی تھے ۔ چوہدری حامد ناصر چٹھہ ان کے عزیز چوہدری بشیر چٹھہ مرحوم اور مجھے ، ہم تینوں کو الگ جیل کی کسی بیرک یاکوٹھری کی بجائے جیل کے "مدرسے" یعنی سکول میں بند کیا گیا ۔
چٹھہ صاحب کے لندن میں گزارے لمحات کا سفر نامہ سن کر اس کا اختتام بھی کر چکے تھے کہ چھ ماہ کے بعد ایک روز میری رہائی کی روبکار آگئی اورمیں جیل سے باہر آگیا ۔ چند ہفتوں بعد چٹھہ صاحب بھی رہا ہو کر گوجرانوالہ پہنچ گئے۔ انہیں ملنے ان کے گاﺅں احمد نگر چٹھہ گیا اور یوں اکثر وبیشتر ملاقاتیں جاری رہیں۔ پھر وہ اقتدار کی راہداریوں میں پہنچ گئے تو اپنی افتادطبع کے باعث میری اُن سے ملاقاتیں خال خال ہی رہ گئیں کیونکہ مجھے ان ایوانوں کی قربت سے بھی متلی ہونے لگتی ہے ۔اب حلقہ 101 کا انتخاب آیا ہے تو ان سے نیاز مندی کی بناءپر ۔ نیاز مندی اس لیے وہ انتہائی شریف سلجھے صاحب علم بے ریا اور صاف ستھرے انسان ہیں۔ جی ہاں اس نیاز مندی کی بنا پر انہیں وہی مشورہ دوں گا جو چوہدری انور عزیز کو ان کے باپ کے ایک دوست نے دیا تھا کہ" الیکشن نہیں ہارنا۔ ان پر ناجائز مقدمات کے اندراج کا آغاز ہو چکا ہے ۔ گزشتہ دنوں کاغذات نامزدگی کی جانچ پڑتال کے دوران انکے مخالف امید وار نے ایک نوجوان وکیل کو بڑی حقارت سے کہا کہ "توں کل دا منڈ میرے تے اعتراض کریں گا" یہ گویا ایک اشارہ تھا اسکے بعد اُنکے چمچے اس وکیل صاحب پر پل پڑئے اور خوب درگت بنائی ۔ ڈسڑکٹ بارکا ایک بڑا اجلاس ہوا اور جسٹس (ر) افتخار چیمہ کیخلاف اندراج مقدمہ کے علاوہ انکے رویے کی بھی مذمت کی گئی ۔ جواباً انہوں نے بھی وزن برابر کرنے کیلئے ایک جھوٹا مقدمہ انکے بیٹے احمد چٹھہ جو حلقہ 101 سے قومی اسمبلی کے امیدوار ہیں اور دوسرے بیٹے سابق ضلعی ناظم فیاض چٹھہ کیخلاف درج کروادیا ہے۔
میں نے گزشتہ روز بار روم میں حامد ناصر چٹھہ کے دست راست سابق وزیر چوہدی عارف چٹھہ کے گوش گزار کیا کہ طبل جنگ بج چکا ہے ۔ حلقے میں ووٹ تو چٹھہ قبیلے کے سردار حامد ناصر چٹھہ کی ضرورت سے زیادہ ہیں مگر دوسری طرف حکومتی ہتھکنڈے ہیں جو ایک کانسٹیبل سے لے کر I.G اور ایک پٹواری سے لے کر چیف سیکرٹری تک استعمال کئے جائیں گے ۔ مگر اپنے ووٹوں اوربیلٹ بیکسوں کی حفاظت اسی طرح کرنا جیسے چوہدری انور عزیز نے کی تھی یا 2013 کے الیکشن میں لاہور میں شفقت محمودنے کی ۔
چٹھہ صاحب جان ہار دینا .... الیکشن نہیں ہارنا

سلیمان کھوکھر-----چہرے

سلیمان کھوکھر-----چہرے

epaper

ای پیپر-دی نیشن