شاہ بانو کیس سے تحفظ خواتین بل
شاہ بانو کی شادی 16سال کی عمر میں1932ءمیں اندور کے ایک معروف وکیل محمداحمد خان سے ہوئی جو شہر کے صاحب حیثیت شخص تھے۔ان کی حیثیت کا اندازہ اس سے کیا جاسکتا ہے کہ 1932ءمیں ان کا مہر تین ہزارروپیہ مقرر ہوا تھاجبکہ ان دنوںسونے کا بھاو¿20روپیہ تولہ تھا۔ اس شادی سے دونوں کے پانچ بچے دو بیٹیاں اور تین بیٹے تھے۔ شاہ بانو سے شادی کے 14سال بعدوکیل صاحب نے ایک اور شادی کرلی، اس سے بھی دو بچے ہوئے۔30 سال تک دونوں بیویاں ساتھ رہیں۔ 1975ءمیں کسی بات پر ناراض ہوکرانہوں نے شاہ بانو اوران کے پانچوں بچوں کو گھر سے نکال دیا۔البتہ خرچے کے لئے دو سوروپیہ ماہانہ دیتے رہے کچھ عرصہ کے بعد خرچہ دینا بند کردیا۔1978ءمیں ان کی 62سالہ رفیقہ حیات نے عدالت میں خرچے کی درخواست دائر کی۔ اس پرخان صاحب نے 6نومبر1978ءکو ان کو طلاق مغلظہ (ناقابل رجوع، تین طلاق) دیدی۔پریشان حال خاتون نے جب خرچے کے لئے عدالت سے رجوع کیا تو محمد احمد خان نے عدالت سے کہا کہ انہوں نے طلاق دیدی اورمہر کی رقم بھی ادا کردی ہے۔ عدت کے بعد طلاق شدہ بیوی کو خرچہ دینے کے وہ پابند نہیں ہیں، کیونکہ وہ مسلمان ہیں لیکن مجسٹریٹ نے ان کی یہ دلیل مسترد کردی اور دفعہ 125کے تحت 25روپیہ ماہانہ خرچہ دینے کا حکم صادر کردیا۔مسٹرخان نے اس فیصلہ کوقبول نہیں کیا اور ہائی کورٹ میں اپیل کردی۔ ہائیکورٹ نے اپیل کوخارج کردیا اور گزارے کی رقم بڑھا کر 179روپیہ 20پیسہ ماہانہ کردی۔ اس کےخلاف وہ سپریم کورٹ گئے۔ سپریم کورٹ کے پانچ رکنی بنچ نے فیصلہ دیا کہ اگرمسلم مطلقہ کے پاس گزر اوقات کا ذریعہ نہیں اور اس کا مسلم شوہر نادار نہیں، تو شوہر اس وقت تک خرچہ دینے کاپابند ہے، جب تک وہ عورت دوسری شادی نہ کر لے اور بعض حالتوں میں تا عمر۔
اس فیصلے پر مسلمانوں نے شدید رد عمل کا اظہار کیا۔ مسلم پرسنل لاءبورڈ متحرک ہوا، اس فیصلے کو خلافِ شرع قرار دیا گیا۔دارالعلوم دیوبند نے یوں لکھا:
”....عدت کی مدت میں عورت طلاق دینے والے کی طرف رہائش، نان و نفقہ کی حقدار ہے۔ عدت کے بعد وہ اجنبیہ ہے، اس لیے عدت کے بعدطلاق دینے والے کے ذمہ ا±س کی رہائش و نفقہ واجب نہیں ہے۔ “ راجیو گاندھی حکومت کو مسلمانوں کے شدید ردعمل کے سامنے جھکنا پڑا اور اس فیصلے کے خلاف آئین میں ترمیم کردی۔ عارف محمد خان نے مسلمانوں کا کیس بڑی مہارت سے پارلیمنٹ میں پیش کیا۔
یہ سب تو درست رہا مگر مسلم مخالف لابی نے مسلمانوں کے خلاف عالمی سطح پر پراپیگنڈے کی انتہا کردی، مسلمانوں کو خواتین کے حقوق کے حوالے سنگ دل بنا کر پیش کیا گیا، شاہ بانو کیس اپنے جلو میں مسلمانوں کے خلاف جو حشر سامانیاں رکھتا تھا اس کے اثرات بھارت میں ہنوز محسوس ہوتے ہیں۔ بابری مسجد کے قضئے نے بھی اس کیس کے بطن سے جنم لیا۔ مسلمانوں کو خواتین کے حقوق کے حوالے سے بدنام ہوئے شاید زیادہ عرصہ ہو گیا تھااس لئے بھارتی سپریم کورٹ کی طرف سے اس سے ملتا جلتا ایک اور فیصلہ آیا۔
بھارتی سپریم کورٹ نے چند ماہ قبل شمیمہ فاروقی نامی خاتون کی درخواست پر اس کے سابق شوہر شاہد کو ماہانہ خرچہ دینے کا حکم سنایا۔ جسٹس دیپک مشرا اور پرفل چندر پنت کی بنچ نے اپنے فیصلے میں کہا کہ مسلم خواتین کو بھی دفعہ 125 کے تحت خرچہ لینے کا حق ہے۔ اگر کسی خاتون کو طلاق ہوگئی ہو تب بھی وہ سابق شوہر سے خرچہ لے سکتی ہے، جب تک کہ دوسری شادی نہیں کرلیتی۔ سپریم کورٹ نے یہ بھی کہا کہ صرف عدّت کے دوران خرچہ دینا کافی نہیں ہے بلکہ سابق شوہر کو اس کے بعد بھی خرچہ دینا پڑے گا۔
شمیمہ فاروقی اور شاہد کی شادی 1992 میں ہوئی تھی۔ شمیمہ نے اپنے شوہر پر ٹارچر کرنے اور کسی سے بات نہیں کرنے دینے او رجہیز میں کار کے مطالبے کا الزام لگایا اور طلاق لے لی۔ شوہر مذکور نے طلاق کے بعد مہر کی رقم بھی ادا کردی تھی۔
اس پرمستزاد کچھ سال قبل مہاراشٹر کی حکومت نے ”میٹری مونیل پراپرٹی رائٹس آف ویمن اپ آن میریج بل“کے نام سے ایک بل پیش کرنے کا ارادہ ظاہر کیا۔اس بل کے پاس ہوجانے کے بعد طلاق شدہ عورت یا شوہر سے علیحدگی اختیار کرنے والی عورت، شوہر کی مجموعی املاک کے پچاس فیصد کی حقدار ہوگی۔ بھارت کے مسلمانوں نے شاہ بانو کیس کی طرح شمیمہ کیس اور مہاراشٹر حکومت کے مجوزہ بل کی شدید مخالفت کی۔ اسے بھارت کی مسلم مخالف ذہنیت نے پوری دنیا میں یہ کہہ کر اچھالا کہ مسلمان خواتین کو ان کے حقوق دینے پر تیار نہیں۔
جب خواتین عدالت میں جا کر یہ کہیں گی ”شوہر نے طلاق دے دی، والدین مر گئے، اولاد ہے نہیں، اولادہے تو باپ کے پاس ہے، کوئی عزیز رشتہ دار پناہ دینے کو تیار نہیں، اب وہ کہاں جائے“ اس موقع پر مسلم پرسنل لاءبورڈ نے ایسی مسلم خواتین کے تحفظ کے لئے کوئی اقدامات کئے ہوتے یا فنڈ حکومت سے مختص کرایا ہوتا تو عدالت ایسا فیصلہ نہ دیتی، جسے شریعت کی روح سے متصادم قرار دیا جاتا۔
دین حنیف میں خواتین کے حقوق کے تعین پر خود خواتین مطمئن ہیں۔ مسئلہ وہاں پیدا ہوتا ہے جہاں مذہب اور مروجہ کلچر میں فرق ہو۔ مذہب میں خواتین کے فرائض زیادہ تر گھر تک محدود ہیں، اس کی ضروریات اور گھر چلانے کی ذمہ داری مرد پر ہے۔ معاشرے میں ایسا کلچر بھی ہے جہاںخواتین محنت مزدوری کرتی ہیں، مرد گھروں میں آرام فرماتے ہیں اور پھر خاتون پر تشدد کو اپنا حق بھی سمجھتے ہیں۔ بعض جاگیردار عورت کو باندی بناکر رکھتے ہیں۔ پنجاب حکومت کے بل کو عموماً لوگ اپنے اوپر منطق کر کے اس کی حمایت اور مخالفت کر رہے ہیں، خواتین پر ظلم بند ہونا چاہیے۔ اس کےلئے حکومت جو بھی ممکن ہے وہ کرے مگر اس کا ماخذ قرآن و حدیث سے کسی صورت ہٹ کر نہ ہو۔ ہم خواتین کو اس قدر تحفظ دیں کہ مغرب تنقید کے بجائے تقلید پر مجبور ہو جائے۔
غیرت کے نام پر قتل کے حوالے سے آج کل وزیراعظم بڑے جذباتی اور متحرک ہیں، یہ ایک بہت بڑا چیلنج ہے۔ قتل کیس میں ریاست مدعی ہوتی ہے مگر اول تا آخر ایسے کیسوں میں حکومت کہیں نظر نہیں آتی ہے۔ جس کا زور چلتا ہے وہ فیصلہ اپنے حق میں کرا لیتا ہے۔آج ایک خبر میں کہا گیا کہ غیرت کے نام پر بہن اور بہنوئی کے قاتل دوبھائیوں کو دو دو مرتبہ سزائے موت دی گئی۔ بہنوئی پارٹی طاقتور ہوگی ورنہ تو ایسے کیسوں میں قاتل صاف بچ نکلتے ہیں۔ آج ہی کی دوسری خبر ہے ”باپ نے بیٹی کو بتائے بغیر گھر سے نکلنے پر قتل کردیا“۔ بیٹی کا یہ قاتل اگلے ماہ گھر میں ہوگا۔کیونکہ ریاست اسکی مدعی نہیں ہوگی۔