آسکر ایوارڈ شرمین اور سید نور کا مشترکہ حق تھا؟
شرمین عبید چنائے نے جو فلم بنائی ہے اسے آسکر ایوارڈ ملا ہے۔ ہم اس سے خوش ہوئے ہیں مگر اس حوالے سے سید نور نے کہا ہے کہ میری فلم کا چربہ ہے۔ تین سال پہلے سے ”پرائس آف آنر“ کے نام سے ایک فلم بنانا شروع کی تھی جو تقریباً مکمل ہے اور چند مہینوں میں نمائش کے لئے پیش کر دی جائے گی۔ اس فلم میں یہی آئیڈیا ہے۔ یہی کہانی ہے۔ دونوں میں معمولی سا بھی فرق نہیں ہے۔ یہ فلم کچھ نہ کچھ انٹرنیٹ پر موجود ہے۔ فرق صرف یہ ہے کہ شرمین کی فلم کے کردار انگریزی بولتے ہیں۔
سید نور نے ایک ٹی وی چینل پر مجھ سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ دوسرے فلم میکر کا خیال رکھنا چاہئے۔ ہماری گفتگو میں برادرم فہیم فارانی بھی موجود تھے۔ مگر لگتا ہے کہ شرمین صرف آسکر ایوارڈ لینے کے لئے فلم بناتی ہے اور اس کا چرچا میڈیا پر بہت ہوتا ہے۔ دوسری بار اسے آسکر ایوارڈ ملا ہے وہ پھر فلم بنائے پھر سید نور کا آئیڈیا چوری کرکے بنائے۔ اسے آسکر ایوارڈ مل جائے گا کیونکہ آسکر ایوارڈ فلم پر نہیں ملتا۔ اس کے کئی اور مقاصد بھی ہوتے ہیں۔ پاکستان اور پاکستانیوں کو بدنام کرنا بھی ایک مقصد ہے ورنہ کس ملک میں یہ جرائم نہیں ہوتے۔ جرم بھی ہوتا ہے اور ظلم بھی ہوتا ہے۔
سید نور پاکستانی فلم کے لئے ایک بہت قابل فخر نام ہے۔ ہر کہیں اداکار مشہور ہوتے ہیں کوئی سٹوری اور مکالمے (ڈائیلاگ) لکھنے والے کو جانتا تک نہیں۔ نہ فلم بنانے والے کو جانتا ہے۔ یہ تو ایک کاروبار ہے مگر سید نور ایک مشن کے طور پر ایک جذبے سے اپنے اندر کی تڑپ کے لئے یہ کام کرتے ہیں۔ کوئی سید نور سے ملے تو دیکھے کہ وہ ایک آرٹسٹ آدمی ہے۔ اور پاکستانی فلم کو ایک بہت اعلیٰ مقام تک لے جانے کے لئے بے تاب ہے۔ وہ بہت مہذب آدمی ہے۔ بہت ذوق و شوق والا آدمی ہے۔ وہ اداکار اور فلمی ہیرو نہ ہونے کے باوجود بہت محبوب اور مقبول آدمی ہے۔ اسے بہت مقام اور احترام حاصل ہے۔ وہ دوست اور دست دار آدمی ہے۔ بہت سادہ آسودہ اپنے مزاج کے اعتبار سے ہے۔
شرمین کو احساس کرنا چاہئے بلکہ اپنے نام کے حوالے سے شرمین کو شرم کرنا چاہئے۔ یہ ”شرم“ شرمین سے نکلا ہے۔
وہ اگر آسکر ایوارڈ کو وصول کرتے ہوئے یہ بات کہہ دیتی کہ میں نے یہ آئیڈیا سید نور کی فلم سے لیا ہے تو اس کی عزت میں اضافہ ہوتا۔ ہمارے نامور لوگوں کے دلوں میں کشادگی کیوں نہیں ہے۔ ہم کشیدگی کی بات کرتے ہیں۔ کشیدگی صرف حالات میں نہیں ہوتی۔ خیالات میں بھی ہوتی ہے۔ انسانی رویوں میں بھی ہوتی ہے۔ ان کے مزاج میں بھی ہوتی ہے۔ نظریات میں بھی ہوتی ہے۔
عمران نے ورلڈ کپ وصول کرتے ہوئے سارا کریڈٹ خود لے لیا اور ایک بڑی کامیابی میں ٹیم کا نام نہیں لیا تھا اور ٹیم کے کسی فرد کا نام نہیں لیا۔ کوئی بھی جیت ٹیم ورک کے بغیر ممکن نہیں ہوتی۔ اصل میں آسکر ایوارڈ سید نور کو بھی ملنا چاہئے تھا۔ یہ ایوارڈ اگر مشترکہ طور پر سید نور اور شرمین عبید چنائے کو ملتا تو اس ایوارڈ کی بہت زیادہ اہمیت بنتی۔ مگر ہم سید نور سے بہت محبت کرتے ہیں اس نے پاکستانی فلم انڈسٹری کو ایک عزت اور نام دیا ہے۔ ہماری فلم انڈسٹری کی بہت بڑی اداکارہ اور ہیروئن صائمہ نے سید نور کا انتخاب کیا تو کچھ سوچ سمجھ کر کیا ہو گا۔ ہم تو بھابھی رخسانہ نور کے بہت قائل ہیں۔ وہ بہت اچھی شاعرہ اور گیت نگار ہے سید نور سے پیار کرنے والی ہے۔ وہ آج کل کچھ علیل ہے۔ ہم اس کے لئے دعا گو ہیں۔
میں نے اس سے پہلے بھی شرمین کے حوالے سے کالم لکھا تھا۔ وہ پاکستان کی قابل فخر بیٹی ہے۔ میں نے لکھا تھا کہ کیا پاکستان میں کوئی پازیٹو بات نہیں ہوتی۔ یہاں اپنے گھر والوں کی عزت کرنے والے لوگ بے شمار ہیں۔ ہمارا خاندانی نظام دنیا میں مثال کے طور پر پیش کیا جاتا ہے۔ شرمین پاکستان کے کسی پازیٹو حوالے سے فلم بنائے پھر اسے آسکر ایوارڈ مل جائے تو ہم سربلند ہوں گے۔ ہمارے ہاں تو ایسے لوگ بھی ہیں جنہیں ایوارڈ بھی نہیں ملتا۔