• news
  • image

صوفیا کرام کے کلام سے امن کا سفر

پاکستان ایسے صوفیا اور اولیاء کی سر زمین ہے جس نے اپنی زندگیاں اللہ کے بندوں کی بہتری کے لیے وقف کر دیں اور جن کی سوچ کا محور دھرتی کے تہہ سے پھوٹنے والی اقدار اور ثقافت سے جڑا رہا ہے۔ پاکستان میں بولی جانے والی سبھی زبانیں معرفت اور محبت کی زبانیں ہیں کیونکہ ان کا تعلق زمین کی قربت سے جڑا ہوا ہے۔ ان میں تخلیق ہونے والا ادب اپنے اندر ہر طبقہ فکر کے لوگوں کے لیے ایک روشن سمت کا تعین کر دیتا ہے۔ پنجاب کی دھرتی پر اللہ پاک کے خاص کرم سے ہر دور میں صاحب علم اور اللہ کی محبت سے شر سار صوفیا کرام کا ظہور ہوتا رہا ہے۔ ایسے صوفی جن کا ہر لفظ معرفت کا ایک سمندر تھا۔ اب اس معرفت سے لوگ اپنی استطاعت کے مطابق فیض حاصل کرتے تھے اور ایک سیدھی سادھی روا داری کی زندگی بسر کرتے تھے جس میں تمام فرقوں اور اقلیتوں کا احترام ہوتا تھا۔ پنجاب کی اس خوبصورت دھرتی پر لوگوں کو مل جل کر رہنے اور احترام آدمیت کا درس دینے والے آرام فرما ہیں اور ان کے لفظوں کی صورت ان کا فیض آج بھی جاری ہے۔ ان کا کلام ذہنوں پر ایسے اثر کرتا ہے کہ ہم ایک ان دیکھی محبت کی وادی میں پہنچ جاتے ہیں جہاں روح اور جسم میں فاصلہ نہیں رہتا یعنی نفس کی رکاوٹیں ختم ہو جاتی ہیں اور دل آئینہ خانہ بن جاتا ہے۔ روح ایک حقیقت ہے مگر ہم دنیا داری میں الجھ کر اس کے احکامات کو فراموش کر دیتے ہیں۔ جس کی وجہ سے ہماری زندگیوں میں امن و سکون ختم ہو جاتا ہے۔ صوفی وہ جوہری ہے جو نفس کے بت کو روح کے نور سے روشن کر دیتا ہے اور ان کی فکر ہمارے دلوں کے آس پاس بھٹکتے وہم و خیال کے آلودہ سائے دھونے کے فن سے بھی واقف ہے۔ یہ محبت کے پیامبر ایسے ہیرے ہیں جن کے دل کھوٹ اور آلودگی سے پاک ہوتے ہیں۔ انسانیت سے محبت کا درس ان کی پہلی ترجیع رہی ہے۔ کیونکہ خالق بھی اپنے بندوں سے یہی چاہتا ہے۔ ان کی کہی ہوئی ہر بات ہم اپنے دل کے قریب محسوس کرتے ہیں۔ بلکہ ان کا کلام پڑھ کر لگتا ہے کہ انہوں نے اپنے کلام سے ہمارے منتشر ذہن کو ایک سمت کی طرف گامزن کرنے کے لیے کہا ہے۔
پچھلے دنوں لاہور پریس کلب کے منتخب نمائندوں کے اعزاز میں دئے گئے ڈنر میں شرکت کا موقع ملا۔ وجدان (کلچرل اور لٹریری آرگنائزیشن )اور پنجاب حکومت کے محکمہ اطلاعت و ثقافت کے تعاون سے لاہور میں ایک بہت پر وقار تقریب کا اہتمام کیا گیا تھا۔ جس میں پریس کلب کے ارکان کے ساتھ ساتھ ملک کے نامور کالم نگار پروڈیوسر، دانشور، شاعر ادیب اور فلمی دنیا کے بڑے ناموں کے علاوہ ٹی وی کے بہت سے نمائندے بھی شریک ہوئے۔ انتظامیہ اس بات پر کافی مبارک باد کی مستحق قرار پائی کہ انہوں نے اس شاندار تقریب کے لیے شاندار لوگوں کا انتخاب کیا۔ پلاک میں ہونے والی اس محفل میں مقررین کی اکثریت نے اپنی ماں بولی زبان میں اپنا نقطہ نظر پیش کر کے محفل کو چار چاند لگادئے۔ ایک طرف جب ہماری ایلیٹ کلاس پنجانی زبان سے دور بھاگتی نظر آرہی ہے۔ دوسری طرف ملک کے دانشوروں نے پنجابی زبان کو معاشرے میں پھیلے انتشار کو دور کرنے کی کنجی بتلایا۔ پنجابی زبان جس میں محبت کے وہ شہ پارے تشکیل ہوئے ہیں جن کی مثال ملنا ہی بہت مشکل ہے۔ سب سے زیادہ خوش کن جناب محمد شہباز میاں صدر لاہور پریس کلب کا خطاب رہا۔ انہوں نے بہت خوبصورت انداز میں پنجابی زبان کے ساتھ روا رکھی گئی پالیسوں کا زکر کیا۔ اور اپنی طرف سے پلاک والوں کو مستقبل میں پنجابی زبان کے حوالے سے کیے جانے والے ہر طرح کے تعاون کا یقین دلایا۔ منو بھائی، بہار بیگم، رانا محمد ارشد، چوہدری لنگڑیال، امتیاز عالم، ڈاکٹر مجاہد کامران، اعجاز حسین پیارا، سعد اللہ شاہ، سر فراز سید، ڈاکٹر غافر شہزاد، میاں حبیب، ہارون عدیم، قیصر شریف، ذوالفقار راحت، نجم ولی خان، نیلم احمد بشیر، ناصر بشیر، اور دیگر مقررین سمیت سبھی حاضرین محفل اس بات پر متفق تھے کہ ملک کی بہتری کے لیے اب وقت آگیا ہے کہ پنجابی زبان کو لازمی مضمون کے طور پر پڑھایا جانے اور بنیادی تعلیم کے لیے ذریعہ تعلیم قرار دیا جائے۔ اب ہم سب مل کر پنجابی زبان اور پنجا ب کے صوفی شعرا کا پیغام عام کرنے کے لیے مسلسل متحرک رہیں گے۔ ہمارے پنجابی صوفی شعرا کے کلام میں محبت پیار اور مل جل کر رہنے کا ایک دوسرے کو برداشت کرنے کا ایسا سبق ملتا ہے کہ اگر ہم اس کو سمجھ لیں تو ہمارے معاشرے میں پھیلی نفرت اور بدامنی کی فضا بہت جلد ختم ہو جائے گی۔ آج کل کے حالات کا تقاضا ہے کہ صوفی شاعروں کے کلام کو عام کیا جائے اور اس کے لیے پریس کلب اپنی کوشش جاری رکھے گا۔

epaper

ای پیپر-دی نیشن