There is only one God
ھو آپو بول نہ جاندا ایں کھیاسب حکمائو جیو
(ترجمہ) میں خود کچھ نہیں جانتا میرا مالک (اللہ) جس طرح مجھے کہہ رہا ہے میں اسی طرح ہی دوسروں کو گیان علم دے رہا ہوں (صفحہ 763)
وسیع و عریض تا حد نگاہ پھیلے ہوئے صحن چمکتے ہوئے دالان ہر دیوار’’نفاست ‘‘سے جڑی ہوئی پورے وقت کے دوران مسلسل’’ ملاحظہ‘‘ کیا۔ خدمت گاروں کی ایک ٹیم ہمہ وقت صفائی ستھرائی میں مصروف تھی ،موسم میں بھی آج کچھ’’ نرمی‘‘ تھی سورج نے اپنا’’ چہرہ‘‘ پوری طرح سے ’’بے نقاب‘‘ نہیں کیا تھا کچھ اوپر سے’’ ٹھنڈک‘‘ اور کچھ’’ فرش‘‘ ٹھنڈک پہنچا رہے تھے ایک مخصوص مقام پر جوتے اتار دیئے چھوٹی سی’’ آبی گزرگاہ ‘‘سے ننگے پائوں گزر کر بابا گرونانک کی اصل بلڈنگ میں داخل ہوئے ،پائوں پر لگی مٹی صاف ہو گئی ،گروجی کی سمادھی کے ارد گرد اونچے محرابوں کو ’’پردوں ‘‘نے ’’ڈھانپہ‘‘ ہوا تھا کھلے آسمان تلے زمین پر ٹھنڈک پھیلی ہوئی تھی یہ احوال ہے ہماراایک وفد کے ساتھ گرونانک جانے کا۔ سمادھی پر حاضری دینے کے بعد وہاں کے عہدیدار وں نے ہمیں چادریں پہنائیں ،وہاں پہ مقیم لوگوں کے ساتھ ملاقا تیں ہوئیں اور انھیں بابا کی تعلیمات کے مطابق پایا ۔ شاعرِ مشرق علامہ اقبال، نے بانگِ درا میںبابا گرونانک کو یوں خراج تحسین پیش کیا ہے…
پھر اٹھی آخر صدا توحید کی پنجاب سے
ہند کو اک مرد کامل نے جگایا خواب سے
بابا گرونانک نے بلا امتیازِ مذہب و رنگ و نسل ہر کسی کے لیے پیار کا پیغام دیا اور ہر مذہب کے لوگ ان سے بے انتہا محبت کرتے تھے۔ انہوں نے پنجاب کے لوگوں کو "ست سری اکال" (یعنی خدائے واحد ہی سچ ہے )کا نعرہ دے کر ہندوستان کے ان حصوں تک بھی توحید کا پیغام پہنچایا، گرو نانک دیو جی 15 اپریل 1469کو شیخوپورہ سے 65 کلو میٹر دور واقع تلونڈی نام کے ایک گاوں میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد مہتا کالیاعلاقے کے پٹواری تھے۔ گرو نانک ایک روایتی ہندو گھرانے سے تعلق رکھتے تھے اور ان کے بچپن کے دوستوں میں ہندو اور مسلمان دونوں شامل تھے۔ ان کا سب سے قریبی دوست ایک مسلمان میراثی تھا جس کا نام' مردانہ 'تھا۔چھ سال کی عمر میں گرو نانک کو مقامی استاد کے پاس ہندی اور ریاضی کی تعلیم حاصل کرنے کے لیے بھیجا گیا۔ انہوں نے وہاں فارسی اور عربی بھی سیکھی۔گرو نانک کہتے تھے کہ انسان کا ’’رشتہ ‘‘براہ راست خدا سے ہوتا ہے وہ کہتے تھے کہ سب سے پہلے اپنا باطن خدا کی’’ مرضی ‘‘کے مطابق ڈھالو۔لباس، رسوم اورظاہری وضع ثانوی بحث ہے۔ انہوں نے کہا:اِک اَونکار سَتّ نام، کرتا پرکھ، نِر بَھو، نِر وَیر(خدائے واحد ہی سچ ہے ، وہ خالق ہے، اسے کسی کا ڈر نہیں، اس کی کسی سے دشمنی نہیں)اکال، مورت اجونی، سے بھنگ، گْر پرساد(وہ اکیلا ہے، اس کی کوئی صورت نہیں، وہ زندگی اور موت کے چکر سے آزاد ہے، اس کا حصول ہی اصل نعمت ہے)گرو نانک کے انہی الفاظ سے گرو گرنتھ صاحب جو کہ سکھ مذہب کی مقدس کتاب کا آغاز ہوتا ہے۔گرو نانک خدا کی ’’وحدانیت ‘‘کے قائل تھے اور بت پرستی کے خلاف تھے،انہوں نے’’ تثلیث ‘‘کی نفی کی اور اس بات کو بھی رد کیا کہ خدا’’ انسانی روپ‘‘ میں پیدا ہو سکتا ہے۔ انہوں نے ملازمت چھوڑ دی اور اپنا مال و اسباب غریبوں میں’’ بانٹ‘‘ کر مردانہ کے ساتھ سفر پر نکل پڑے۔ ان کا مقصد معاشرے سے نسلی اور مذہبی امتیاز کو’’ ختم ‘‘کرنا تھا۔ وہ فرسودہ رسم و رواج کے سخت مخالف تھے۔ وہ خدا کا پیغام گیتوں کی شکل میں لوگوں تک پہنچاتے تھے۔ جس علاقے میں بھی جاتے اس کی مقامی زبان میں لوگوں سے بات چیت کرتے تھے۔ ان کے یہ اطوار اس زمانے کے لوگوں کے لیے انتہائی حیران کن تھے ۔گرو نانک نے برصغیر کے طول و عرض میں کئی سال سفر کرتے ہوئے اپنی تعلیمات کا پرچار کیا۔ گرو نانک اپنی زندگی کا بڑا حصہ’’ سفر‘‘ میں بسر کرنے کے بعد واپس پنجاب پہنچے اور راوی کے کنارے واقع ایک گائوں کرتارپور میں اپنے بیٹوں اور بیوی کے ساتھ باقی کی زندگی بسر کی۔ وہ کھیتی باڑی کرتے تھے ۔معروف تاریخ دان ڈاکٹر ایچ آر گپتا لکھتے ہیں کہ' گرو نانک کا مذہب،خدا سے، انسانوں سے اور انسانیت سے پیار کا مذہب تھا۔ ان کا مذہب ذات پات، نسل اور ملک کی قید سے آزاد تھا۔ وہ ہندووں، مسلمانوں، ہندوستانیوں اور غیر ملکیوں سے یکساں ’’محبت ‘‘کرتے تھے۔ ان کا مذہب ایک عوامی تحریک تھی جس کی بنیاد سیکولر ازم اور سوشل ازم کے جدید تصورات پر مبنی تھی، تمام انسانوں کی برابری کی تحریک۔ نانک کی ساری تعلیمات پنجابی زبان میں تھی اور ان کا کلام گانے والوں میں زیادہ تر غریب محنت کش ہوتے تھے۔ نانک کا خواب ذات پات سے آزاد معاشرے کا قیام تھا۔ ان کے دور کے طاقتور مذاہب یعنی اسلام اور ہندو مت میں تعلیمات کے ساتھ ساتھ مذہبی تصورات اور عقائد کی بھی بہت اہمیت تھی ۔ ان کی تعلیمات یہ تھیں -1اللہ کو ایک ماننا، کسی کو شریک نہ ٹھہرانا، اسی کی عبادت کرنا، اسی کے حکم کو ماننا ،اسی کی رضا میں رہنا۔ -2اپنی محنت کی کمائی سے ضرورتیں پوری کرنا اور ضرورت مندوںکے ساتھ مل بانٹ کر کھانا۔ -3کسی پر ظلم نہ کرنا، کسی کا حق نہ کھانا، مظلوم کی مدد کرنا، آپسی بھائی چارے اور انکساری میں رہنا۔-4غرور تکبر فضول کی رسومات ، ریا کاری اورجواء سے گریز کرنا۔ان کے مقبرے پہ آج بھی’’ لنگر‘‘ کا خاص انتظام ہوتا ہے یہ سب انھوں نے اسلا م سے لیا ہے منافقت سے پرہیز کرنا ۔تشہیر، نمود نماش سے بچنا ،برداشت، رواداری ،کسی کا حق نہ مارنا ،ظلم سے بچنا،منافقت اور دوغلے پن سے اجتناب اگر آج سبھی مذاہب کے لوگ اس پر عمل کریں تو دینا میں امن وسکون ہو سکتا ہے ، ہر مذہب کے پیروکار اپنے اپنے مذہب کے آفاقی اصولوں پہ علم کر کے دنیا کو جنت بنا سکتے ہیں۔