احتساب نہیں اسلامی تعزیرات
مملکت خداداد پاکستان کرۂ ارض پر واحد ریاست ہے جو ایک نظریے کے تحت وجود میں آئی۔ دستور زمانہ یہ رہا ہے کہ جغرافیہ سے نظریہ ابھرتا ہے جیسے چین والوں نے کمیونسٹ نظریے کو جنم دیا، روسی سوشل ازم کے پرچارک رہے، امریکہ کیپٹل ازم کو دنیا پر مسلط کرنے کا سوچتا ہے۔ اس کے برعکس برصغیر پاک و ہند کی دھرتی پر مسلمانوں نے برہمن ازم کے خلاف بغاوت کرتے ہوئے ثابت کیا کہ یہاں دو قومیں بستی ہیں۔ مسلم اور غیر مسلم جن میں کوئی بات مشترک نہیں۔ ہم کو علیحدہ سرزمین درکار ہے جہاں ہم اپنے عقائد کے تحت نظام حیات گزارنے کا اہتمام کر سکیں۔ اس مطالبے کو دو قومی نظریے کا نام دیا گیا اسی نظریے نے پاکستان کے جغرافیے کو جنم دیا۔ یہی آج نظریہ پاکستان کہلاتا ہے۔ نظریہ پاکستان کا سیدھا سا مفہوم ریاست میں احیائے اسلام ہے۔ پاکستان میں بننے والے تمام دساتیر میں واضح تحریر کیا گیا ہے کہ یہاں قرآن و سُنت کے خلاف کوئی قانون بنایا جا سکتا ہے نہ ہی نافذ کر سکتے ہیں۔ یہاں کے لوگ اپنے وطن کو مدینہ ثانی مانتے ہیں۔ ریاست مدینہ کے خلیفہ اول کا پہلا خطاب ہی ریاست کی کامیابی کی بنیاد ہے ۔ سیّدنا حضرت ابوبکر صدیقؓ نے حلف خلافت اٹھاتے ہوئے اعلان عام کیا۔ لوگو! اگر میں صراط مستقیم پر رہوں تو میری اعانت کرنا اگر گمراہ ہونے لگوں تو مجھے سیدھا کر دینا۔ تحریک پاکستان چلانے والوں کا بھی تصور حکمرانی ریاست حکم ربانی اور قانون قرآنی کو جاری و ساری کرنا تھا۔ تحریک پاکستان کی پوری قیادت اپنے کردار و اعمال کے لحاظ سے ایک مثالی زندگی اور رویوں کے مالک تھی تب جا کر سنگین اور نامساعد حالات میں نہ صرف قیام پاکستان کا مرحلہ طے ہوا بلکہ ترقی کے زینے طے ہوتے چلے گئے۔
پاکستان میں احتساب کے نام پر مذاق شروع سے ہی نظر آتا ہے۔ صدر ایوب خان نے بڑی مہارت اور چالبازی سے ایبڈو قانون بنا کر پاکستان بنانے والوں کو سیاست سے نااہل قرار دیا پھر یحییٰ خان نے تین سو تیرہ افسران کو خائن قرار دے کر فارغ کر دیا۔ بھٹو صاحب نے ہزاروں افسران اسی الزام کے تحت برطرف کیا۔ 1977ء میں ہونے والے انتخابات میں دھاندلی کے خلاف ایک عوامی طوفان کھڑا ہو گیا جو تحریک نظام مصطفی کی شکل میں تبدیل ہوا۔ اس دوران بھی احتساب کا مطالبہ سنائی دینے لگا۔ سب سے زیادہ مستقل مزاجی سے پیر پگارو مرحوم اپنی گفتگو میں accountbilty پہلے انتخاب بعد میں پراصرار و تکرار کے ساتھ اس کے آثار پر بھی روشنی ڈالتے رہے۔ حضرت پیر صاحب پگارو اپنے مخصوص علامتی انداز میں مختلف نوعیت کے جملوں پر مشتمل پیش گوئیاں فرماتے۔ کبھی کہتے کہ صفائی ہونے والی ہے، کبھی فرماتے جھاڑو پھرنے والی ہے اور کبھی خوفناک آندھیوں کا ذکر کرتے اور فرماتے جو بچے گا وہ حکومت کرے گا۔ پیر پگارو اسّی نوّے کی دہائیوں میں یہی دُہائیاں دیتے دکھائی دیتے ہیں مگر احتساب نایاب رہا۔ 1990 ء میں نواز شریف حکومت نے سیف الرحمن کی سربراہی میں ایک احتساب بیورو تشکیل دیا جس نے طویل چھان بین کے بعد بڑے بڑے لوگوں پر الزامات لگائے۔ اس دور میں مہران بینک اور زرداری مقدمات کا خاصا چرچا رہا مگر نامزد ملزمان عبرتناک انجام سے محفوظ رہے۔ زرداری نے جیل تو کاٹی مگر سوئس بینک اکائونٹ اور سرے محل پاکستان کو واپس نہ دیا۔ جنرل پرویز مشرف نے نواز حکومت پر کرپشن کے سنگین الزامات لگاتے ہوئے حکومت پر قبضہ کر لیا۔ 1999ء میں ایک صدارتی آرڈیننس کے ذریعے نیب کے نام سے اعلیٰ اختیاراتی تحقیقاتی ادارہ بنایا گیا کرپشن کا سدباب کرنے کا مشن سونپا گیامگر نیب والے ن لیگ اور پی پی پی کے کمزور ایمان ارکان اسمبلی کی برین واشنگ کرتی رہی۔ اس دور میں مسلم لیگ ق پوتر گنگا جل کا درجہ رکھتی تھی یعنی نیب زدہ ارکان اسمبلی ق لیگ میں شامل ہو کر پوتر ہو جاتے۔ جس کے جواب میں پیپلز پارٹی اور ن لیگ کے درمیان میثاق جمہوریت طے پا گیا لہٰذا آئندہ بننے والی پیپلز پارٹی کی حکومت کے متعلق نواز شریف نے بڑی حکمت کے ساتھ پی پی حکومت کی مدت پوری کرائی۔ اس دوران عوام و ملک کو کس کس بحران سے گزرنا پڑا، کن آفتوں کا سامنا ہو امگر ن لیگ نے فرینڈلی اپوزیشن کا مثالی نمونہ پیش کرکے جمہوریت کی تضحیک کی۔ اسی عزم عظیم پر آج پیپلز پارٹی کاربند ہے۔ جنرل راحیل شریف کے کرپشن کے خلاف نقطہ نظر سے نیب کو تقویت حاصل ہوئی۔ ایف آئی اے اور نیب نے ایم کیو ایم اور پیپلز پارٹی کے قاتلوں اور لٹیروں پر ہاتھ ڈالنا چاہا جس سے کراچی میں امن تو بحال ہونے لگا مگر ساری گڑبڑ کی پشت پر بڑے بڑے لوگوں کے چہرے بے نقاب ہونے لگے تو سیاسی پنڈتوں نے ہنگامہ کھڑا کر دیاکہ احتساب ایک صوبے میں کیوں؟ جب احتساب نے پنجاب کا رُخ کیا تو ساری ن لیگ سیخ پا ہو گئی۔ وزیر اعلیٰ، وزیراعظم سمیت تمام اشرافیاء کسی آئین و قانون کی بالادستی قبول کرنے کو تیار نہیں۔ تمام اشرافیہ ایک ہی سوچ کی حامل ہے۔ مختلف طریقہ واردات سے عوام کو بیوقوف بناتے اقتدار کی قوت حاصل کرکے قومی خزانے اور وسائل پر ٹوٹ پڑتے ہیں۔ اقتدار میں رہنے کے لئے اس قدر گھنائونی حرکتوں پر اتر آتے ہیں کہ ملکی استحکام اور بقا بھی دائو پر لگا دیتے ہیں۔ تازہ خبر الطاف حسین اور رحمن ملک ’’را‘‘ کے ایجنٹ ہونے کا انکشاف۔ پاکستان کو بچانا ہے تو ایک بے رحم احتساب بے حد ضروری ہے۔ ایسے میں راقم کے تصور میں پھر پیر پگارو کی آواز گونج رہی ہے کہ پاکستان کا مسئلہ صرف ایک ہی ہے وہ ہمارا کرپٹ بالادست طبقہ ہے جب تک اس ملک میں زیردست بالادست نہیں ہوتے اس نظام کو کوئی تبدیل نہیں کر سکتا۔ پٹواری، کلرک اور پولیس مین کو سزا دینے سے مسئلہ حل نہیں ہو گا جب تک بڑے چوروں کو عبرت ناک سزائیں نہیں ملیں گی معاشرہ اس بیماری سے نجات نہیں پا سکتا۔ اگر ہم پاکستان کو ریاست مدینہ ثانی مانتے ہیں تو اسلامی تعزیرات سے ہی کم وقت میں بہتر نتائج حاصل کئے جا سکتے ہیں۔ شاید اسی لئے بالادست طبقہ اسلامی ضابطہ حیات کے نفاذ سے گھبراتا ہے مگر یاد رکھیں مملکت خداداد کے قیام کا بنیادی مقصد ہی پاکستان کو اسلام کی تجربہ گاہ بنانا تھا۔ یہی پاکستان کا مقدربھی ہے اور بقا کا راز بھی۔ اس سے فرار کا راستہ ہلاکت کی جانب جاتا ہے۔ ہمیں اسلام کے عدل و احسان کے عظیم تر تصور کے ساتھ اسلام کی تعزیرات کو بھی عملا آزمانا ہوگا۔ اس میں ہی ملکی دفاع اور ملت سے وفا پنہاں ہے۔